سورة العنكبوت - آیت 41

مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اللہ کے سوا اور مددگار بنا رکھے ہیں مکڑی کی مثال جیسی ہے، جس نے ایک گھر بنایا، حالانکہ بے شک سب گھروں سے کمزور تو مکڑی کا گھر ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : غیر اللہ سے مدد طلب کرنے والے شخص کے عقیدہ کی مثال۔ تباہ ہونے والی اقوام نے اللہ تعالیٰ کے سوا فوت شدہ بزرگوں، پتھر اور مٹی کی مورتیوں اور دنیا کے مختلف اسباب کو ” اللہ“ کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہ اقوام سمجھتی تھیں کہ ہمارے بزرگ اور اسباب ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اس لیے انہوں نے انبیاء کی دعوت کو قابل توجہ نہ جانا اس جرم کی وجہ سے ان پر رب ذوالجلال کا عذاب آیا تو ان کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے خداؤں اور بزرگوں کو مشکل کشا اور دستگیر سمجھتے تھے۔ ان کے مشرکانہ عقیدے کو مکڑی کے جالے کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے جو دنیا کے گھروں میں سب سے کمزور ترین گھر ہوتا ہے۔ جس طرح مکڑی مضبوط چھت کے نیچے جالا بن کر اپنے لیے الگ گھر تیار کرتی ہے اور اس وہم کا شکار ہوتی ہے کہ وہ اس گھر میں وہ ہر طرح سے محفوظ ہے۔ لیکن ہوا کا معمولی جھونکا یا کوئی تنکا لگنے کی وجہ سے مکڑی کا گھر ختم ہوجاتا ہے یہی حال مشرک کے عقیدے کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آتی ہے تو مشرک نے جس، جس کو سہارا بنایا ہوتا ہے وہ ” اللہ“ کی گرفت کے مقابلے میں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ ناپائیدار ثابت ہوتے ہیں جس طرح مکڑی کا گھر تباہ ہوتا ہے اور مکڑی اپنے بنائے ہوئے تانے بانے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے یہی حال مشرک کا ہے کہ اس نے بھی اپنے لیے ایک تانا بانا بنا رکھا ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مشکل کے وقت مجھے فلاں اور فلاں بچالے گا۔ باطل عقیدہ کی بنا پر جب مشرک پر ” اللہ“ کی گرفت آتی ہے تو اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اسے بہت جلد اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اس کے تصورّات اور جھوٹے عقیدہ پر مبنی خیالات کی کوئی حیثیت نہ ہے۔ باالفاظ دیگر شرک کی بنیاد کسی عقلی اور نقلی دلیل پر نہیں ہوتی۔ شرک کی بے ثباتی اور ناپائیداری کے باوجود مشرک اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ وہ حقیقی علم سے ناآشنا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے شریک کی تائید کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی جب ” اللہ تعالیٰ“ نے شرک کے تائید کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو اسے ثابت کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ ﴿قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْن﴾ [ الاعراف :71] ” اس نے کہا یقیناً تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب آپڑا ہے کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خودرکھ لیے ہیں جن کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ انتظار کرو بے شک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔“ مسائل: 1۔ مشرکانہ عقیدہ مکڑی کے جالے کی مانند ناپائیدار ہوتا ہے۔ 2۔ دنیا کے گھروں میں سب سے ناپائیدار ٹھکانہ مکڑی کا ہوتا ہے۔ 3۔ مشرک حقیقی علم سے ناآشنا ہوتا ہے۔ 4۔ مشرکانہ عقیدہ کی علمی اور فکری بنیادنہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں : 1۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ (ھود :43) 2۔ کافروں کے چہروں پر ذلّت و رسوائی چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (یونس :27) 3۔ اس دن تم پیٹھیں پھیر کر بھاگو گے لیکن تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ (المومن :33) 4۔ اگر آپ (ﷺ) ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کا نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی اللہ سے بچانے والا ہوگا۔ (الرعد :37) 5۔ جب اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں پکڑ اتو انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ (المومن :21) 6۔ فرما دیجیے کون ہے جو تمہیں اللہ کے عذاب سے بچائے گا اگر وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے۔ (الاحزاب :17) 7۔ اگر آپ اس کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ نے اسے معاف نہیں کرنا۔ ( التوبۃ:80)