وَلَمَّا أَن جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۖ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ
اور جیسے ہی ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوا اور ان کے سبب دل میں تنگ ہوا اور انھوں نے کہا نہ ڈر اور نہ غم کر، بے شک ہم تجھے اور تیرے گھر والوں کو بچانے والے ہیں مگر تیری بیوی، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔
فہم القرآن: (آیت33سے35) ربط کلام : قوم لوط تباہی کے دہانے پر۔ عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں قرآن مجید بتلارہا ہے کہ جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے تو بدمعاش قوم ان سے بے حیائی کرنے کی نیت سے ان کے ہاں دوڑی ہوئی آئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے حلال ہیں۔ (یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو) اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ جب وہ بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود :78) بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمھاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں اس مشکل ترین وقت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری دن ہے۔ کاش تمھارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ (ہود : 79، 80) ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرکے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ بے حیا تمھاراکچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جا سکیں گے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا ہے جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے اور یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں فرمانے لگے کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چنانچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو ملائکہ نے اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا، پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : 69تا83) سورۃ القمر 37تا 38میں فرمایا کہ ظالموں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں پر زیادتی کرنا چاہی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مسخ دیا۔ یقیناً لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے ہم نے انھیں اور اس کے اہل کو نجات دی۔ البتہ ایک بڑھیا کو پیچھے رہنے دیا باقی سب کو ہم نے ہلاک کیا۔ اے اہل مکہ تم صبح شام ان بستیوں سے گزرتے ہو لیکن اس کے باوجود عقل نہیں کرتے۔ (الصّٰفٰت : 135تا 138) ﴿فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ﴾[ ھود : 82، 83] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا۔ پھر تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا یہ سزا ظالموں سے دور نہیں ہے۔“ بحرمردار (میت): بحر مردار کے بارے میں پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے البتہ عبرت کی خاطر پھر تحریر کیا جاتا ہے۔ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ 351مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ اللہ کے عذاب کی وجہ سے جب اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ مسائل: 1۔ حضرت لوط (علیہ السلام) ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (کیونکہ وہ لڑکوں کی شکل میں آئے تھے) 2۔ حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کے کردار کی وجہ سے اپنے مہمانوں سے خوفزدہ اور پریشان ہوگئے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط اور ان کی بستی کو تباہ و برباد کردیا۔ 4۔ قوم لوط اور ان کی بستی کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ تفسیر بالقرآن: قوم لوط کی تباہی کا منظر : 1۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر :74) 2۔ لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکارتھے۔ (ھود :78) 3۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود :80) 4۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا پھر ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ اور نشان زدہ۔ (ھود :82)