وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ۖ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور ابراہیم کو جب اس نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
فہم القرآن: (آیت16سے18) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں دوسرے حقائق کے ساتھ یہ بھی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب آیا تو نہ وہ خود ایک دوسرے کو بچا سکے۔ اور نہ ہی ان کے مشکل کشا انہیں بچا سکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مشرک جن بتوں اور معبودوں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہیں اپنے چاہنے والوں کو نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم سے بیک وقت یہ استفسار کیا تھا کہ اے والد گرامی اور میری قوم کے لوگو! بتلاؤ جن پتھر اور مٹی کی بنی ہوئی مورتیوں کے سامنے تم مراقبے، اور جن سے مانگتے ہو ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ ان کا جواب تھا کہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں باور کروایا کہ تم واضح طور پربہک چکے ہو۔ (الانبیاء : 51تا54) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ بھی سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرتے رہو یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم حقیقت جانتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تم بتوں کی عبادت کرتے ہو اور پھر ان کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھیں کسی قسم کا رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ صرف ایک اللہ سے رزق مانگو اسی ایک کی عبادت کرو اور اسی کا شکریہ ادا کرو۔ کیونکہ تم سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس سے ڈرنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن بتوں اور مورتیوں سے مانگتے اور ان کے سامنے جھکتے اور سجدہ کرتے ہو ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی وہ تمھارے نفع اور نقصان کے مالک ہیں۔ ان کو خود ہی تم بناتے، سجاتے ہو اور پھر لوگون کو ان کا گرویدہ بنانے کے لیے جھوٹی کہانیاں تراشتے ہو حالانکہ وہ تمھیں ایک دانہ بھی نہیں دے سکتے۔ مشرکین کی شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مزارات، بت اور مورتیوں کے بارے میں ذاتی اور جماعتی مفاد کی خاطر داستانیں پھیلاتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں مزار پر گیا تو اسے نرینہ اولاد مل گئی۔ وہ شخص فلاں مقام پر پہنچا تو اس کی مشکل حل ہوگئی۔ فلاں فوت شدہ بزرگ نے فلاں جگہ پہنچ کر فلاں شخص کی مدد کی۔ یہ صاحب قبر اس مشکل کا تریاق رکھتا ہے اور وہ قبر والا فلاں پریشانی کو دور کرتا ہے۔ یہ اقتدار اور اقبال عنایت کرتا اور وہ گنج بخش اور شکر گنج ہے اور اپنے ماننے والوں کی روزی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس طرح کی کہانیاں ہر دور کے مشرک بالخصوص متولی، مجاور اور یہ عقیدہ رکھنے والے علماء بناتے اور بتاتے رہتے ہیں۔ رزق کی کشادگی کی خواہش انسانی فطرت کی کمزوری ہے اس لیے نام نہاد مذہبی لوگ مزارات پر اور کافر بتوں کے سامنے نذو نیاز پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی روزی اور وسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہی عقیدہ ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا تھا جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو منع کیا اسی وجہ سے انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے سلامت نکلے تو پھر قوم، حکومت اور ان کے باپ نے بالاتفاق ابراہیم (علیہ السلام) کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کے رد عمل کی طرف توجہ دلاکر نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو بتلایا ہے کہ آپ کے جدّ امجد کو کن کن مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس طرح وہ اور ان کے ساتھی ثابت قدم رہے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو بھی استقامت اور صبر و استقلال کا مظاہر کرنا ہوگا۔ جس طرح آپ کو جھٹلایا جا رہا ہے اسی طرح پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا گیا۔ حالات جیسے بھی ہوں رسول پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کھول کھول کر عقیدہ توحید بیان کرے اور پوری جرت و استقلال کے ساتھ شرک کی تردید کرتا رہے۔ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اسی سے ڈرنے کی تلقین کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا اور اس سے ڈر کر زندگی گزارنا بہترین طرز زندگی ہے۔ 3۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبات کرتے ہیں وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ان کے نام پر جھوٹے قصہ کہانیاں اور کرامات بیان کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے والا نہیں اس لیے اسی سے رزق مانگنا، اسی کی عبادت کرنا اور اسی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ 5۔ رسول اکرم (ﷺ) کا کام کھلے الفاظ میں لوگوں تک حق پہنچانا تھا۔ جو آپ نے کماحقہ لوگوں تک پہنچایا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک اور رزق دینے والا نہیں : 1۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس :106) 2۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ (الانبیاء :66) 3۔ اے نبی (ﷺ) آپ اعلان فرمادیں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں (الاعراف :188) 4۔ کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان نہیں پہچاسکتے۔ (الانبیاء :66) 5۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر :52) 6۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود :2) 7۔ بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذّاریات :58) 8۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر :20)