وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے کہ تم ہمارے راستے پر چلو اور لازم ہے کہ ہم تمھارے گناہ اٹھا لیں، حالانکہ وہ ہرگز ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں، بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت12سے13) ربط کلام : مسلمانوں کو پھسلانے کے لیے کفار اور منافقوں کے مختلف ہتھکنڈے، اور قیامت کے دن ان کی پوچھ کے بارے میں انتباہ کفار اور منافقوں کی ہر وقت کوشش تھی اور رہتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھسلا دیا جائے۔ اسی کے پیش نظر نبی اکرم (ﷺ) کے دور میں مسلمانوں کو پھسلانے اور بہکانے کے لیے کفار اور منافقوں نے مسلمانوں کو یہ بھی کہا کہ اگر تم دین اسلام کو چھوڑ دو۔ تو تمھارے اسلام چھوڑنے کا گناہ ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ اس طرح انھوں نے مسلمانوں کو پھسلانے اور ان کے دلوں سے اسلام کی محبت کم کرنے کی کوشش کی۔ جس کا جواب دیا گیا ہے کہ کفار اور منافقوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا لہٰذا یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ ضرور اپنا اور دوسروں کا بوجھ اٹھائیں گے جنھوں نے خود گناہ کیے اور دوسروں کو گناہوں پر آمادہ کرتے رہے۔ ایسے لوگون کے جھوٹ اور گناہوں کے بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ضرور باز پرس کرے گا۔ یاد رہے کہ آخرت کے دن کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ ہاں جس شخص نے کسی کو بالواسطہ یا بلا واسطہ گمراہ یا کسی کو گناہ پر آمادہ کیا اسے اپنا اور دوسرے کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔ اس سے گناہ کرنے والے کا بوجھ ہلکا نہیں ہوگا۔ اسی اصول کی بنیاد پر قرآن مجید میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ ایسے لوگوں کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ بنی اکرم (ﷺ) نے اس اصول کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ مَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَہُ لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلاَلَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْئًا) [ رواہ مسلم : باب مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً أَوْ سَیِّئَۃً وَمَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی أَوْ ضَلاَلَۃٍ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے ہدایت کی طرف بلایا اسے عمل کرنے والے کے اجر کے مطابق اجر ملے گا جنہوں نے اس کی تابعداری کی۔ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوگی اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا اس کو گناہ کرنے والے کے برابر گناہ ملے گا جو گمراہ شخص کی تابعداری کرتے ہوئے گمراہی کے راستے پر چلے تھے۔ اور ان کے گناہ میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ کوئی شخص دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ 2۔ جس نے کسی کو گمراہ یا گناہ پر آمادہ کیا وہ اپنا اور دوسرے کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جھوٹ بولنے والے اور گمراہ کرنے والے کو ضرور پوچھے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی مجرم کو چھڑا سکے گا : 1۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ:134) 2۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 3۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر :43) 4۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن :39) 5۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 6۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ :141) 7۔ روز محشر دوست کام نہ آئیں گے۔ (البقرہ :254) 8۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کے ماں باپ، قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں گے۔ (عبس : 34۔36)