سورة العنكبوت - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ العنکبوت کا تعارف : ربط سورۃ: القصص کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارنا، حکم اللہ کا چلتا ہے لہٰذا اس کا حکم ہے کہ توحید کی دعوت کو عام کرو۔ العنکبوت کی ابتدا میں ارشاد ہے کہ اس راستہ میں آزمائشیں ضرور آئیں گی۔ تم سے پہلے لوگ بھی آزمائے گئے اور تمہیں بھی ضرور بضرور آزمایا جائے گا تاکہ لوگوں کو کھرے اور کھوٹے کا فرق معلوم ہوجائے۔ سورۃ کا نام آیت 41 سے لیا گیا ہے۔ یہ سورۃ مبارکہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ 7 رکوع اور 69 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلی سورۃ القصص ہے جس کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ ” اللہ“ کے سوا کوئی اور معبود نہیں اس لیے اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ اس سورۃ کی ابتدا میں یہ حقیقت کھول دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے لوگوں کو بھی مختلف انداز میں آزمایا تھا اور ہر صورت میں وہ تمہیں بھی آزمائے گا۔ آزمائش کا مطلب محض تکلیف دینا نہیں بلکہ سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے جو امتحان کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی منکرین حق کو بتلایا گیا ہے کہ تم کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر نہیں ہو۔ یہ تو اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ تمہیں مہلت پر مہلت دے رہا ہے۔ تمہیں اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ کسی کے اس کی طرف متوجہ ہونے سے ” اللہ“ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ وہ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرے گا وہ اس کا ضرور فائدہ پائے گا۔ اس سورۃ کا مرکزی مضمون شرک کی نفی اور ” اللہ“ کی توحید کا اثبات کرنا ہے۔ شرک کو مکڑی کے گھر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار چیز کو یہ شعور بخشا ہے کہ وہ اپنے آرام اور رات گزارنے کے لیے اپنا گھر بناتی ہے۔ دنیا کے گھروں میں سب سے کمزور اور ناپائیدار گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ جسے مکڑی اپنے لیے محفوظ سمجھتی ہے۔ حالانکہ نہ اس سے گرمی میں بچا جا سکتا ہے نہ سردی میں اس میں سکون ملتا ہے۔ اس کی ناپائیداری کا عالم یہ ہے کہ ہوا کا معمولی جھونکا بھی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ یہی مشرک کے عقیدہ کی کیفیت ہوتی ہے وہ جنہیں دکھ اور مصیبت کے وقت پکارتا ہے جو نہی مشرک کو معلوم ہو کہ فلاں شخص بڑا پہنچا ہوا ہے تو وہ سب کو چھوڑ کر اس کی طرف بھاگ جاتا ہے۔ جس طرح مکڑی تانے بانے کو اپنے لیے محفوظ سمجھتی ہے یہی حالت مشرک کی ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے مضبوط سہارے کو چھوڑ کر فوت شدہ لوگوں اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں یہاں تک کہ درختوں اور پتھروں کو بھی نفع ونقصان کا مالک سمجھتا ہے۔ جس طرح ہوا کا معمولی جھونکا مکڑی کے گروندھے کو ختم کردیتا ہے اسی طرح معمولی پریشانی سے مشرک کا اپنے مشکل کشاؤں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ شرک کے عقیدہ کو تار عنکبوت کے ساتھ تشبیہ دینے کے بعد مشرکین سے چند سوال کیے گئے ہیں۔ 1 ۔بتاؤ کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور کس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے؟ 2 ۔” اللہ“ ہی رزق زیادہ اور کم کرنے والا ہے کیا اس کے سوا کوئی ایسا کرسکتا ہے؟ 3 ۔بتاؤ آسمان سے بارش کون نازل کرتا ہے۔ اور کون بارش کے ساتھ مردہ زمین کو ہریالی عطا کرتا ہے؟ ہر دور کے مشرک کا ایک ہی جواب ہے اور ہوگا کہ یہ کام تو صرف ” اللہ“ ہی کرتا ہے۔ فرمایا کہ تمام تعریفات ” اللہ“ کے لیے ہیں اس نے اپنی توحید سمجھانے کے لیے ایسے دلائل دیے اور مثالیں بیان فرمائی ہیں کہ ہر دور کے مشرک لاجواب ہوتے رہیں گے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک توحید سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مشرک جب کسی ناگہانی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو باطل معبودوں کو چھوڑ کر صرف ” اللہ“ کو مخلص ہو کر پکارتے ہیں۔ جب ناگہانی مصیبت بالخصوص سمندر کے بھنور سے ان کی کشتی سلامت نکل آتی ہے تو خشکی پر پہنچ کر پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ عقیدہ شرک اختیار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگانا اور اس کے ارشادات کی تکذیب کرنا ہے۔ کیونکہ شرکیہ عقیدہ کی بنیاد جھوٹی کہانیوں اور من گھڑت کرامات پر قائم ہوتی ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی بات لگائیں گے اور اس کے ارشادات کا انکار کرینگے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین اور اذّیت ناک جگہ ہے۔ ہاں جن لوگوں نے دین اور عقیدہ توحید کو پانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ ضرور ان کی۔ راہنمائی فرمائے گا کیونکہ وہ اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔