وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ
اور تیرا رب کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں، یہاں تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول بھیجے جو ان کے سامنے ہماری آیات پڑھے اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر جب کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔
فہم القرآن: ربط کلام : بستیوں کو تباہ کرنے کی وجہ۔ اس سے پہلے زکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترقی یافتہ اور کئی مال دار بستیوں کو تباہ کیا۔ اب وضاحت کی جا رہی ہے کہ جن بستیوں کو تباہ کیا گیا ان پر آپ کے رب نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اس کا اصول ہے کہ اس وقت تک کسی قوم کو عذاب نہ دیا جائے جب تک اس تک رب تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچ جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر ہر تباہ کی جانے والی قوم کے مرکزی شہر یا علاقہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے جو ان کے سامنے اس کے فرامین بیان کرتے تھے اور انھیں باربار بتلاتے اور سمجھاتے کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو اس کا عذاب تم پرنازل ہوگا۔ جب لوگوں نے رسول کی ذات یا اس کی تعلیمات کو کلی طور پر جھٹلادیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب نازل کیا۔ اس کا عذاب ہمیشہ ظالم قوم پر ہی نازل ہوتا ہے۔ مرکزی شہر میں رسول بھیجنے کا مقصد یہ ہے تاکہ آسانی کے ساتھ لوگوں تک حق بات پہنچ جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹے شہر، قصبات اور دیہات بڑے شہروں سے ہی متاثر ہوا کرتے ہیں۔ جس طرح غریب لوگ امیروں سے اور چھوٹے طبقات بڑے طبقہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ ظلم سے پہلی مراد شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ زیادہ دیر تک گوارہ نہیں کرتا اس لیے اس نے قوم نوح، ثمود، عاد اور دیگر قوموں کو نیست و نابود کیا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ اپنا پیغام پہنچانے سے پہلے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے تباہ ہونے والے اقوام کے مرکزی مقامات پر اپنے رسول مبعوث فرمائے۔ 3۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا کام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔