إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ جاہلوں سے الجھنے سے پرہیز کریں۔ یہ بھی جہالت کی بدترین قسم ہے کہ انسان جاننے کے باوجود حقیقت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ جناب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو نبی کریم (ﷺ) ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان کی خدمت میں پہنچ کر فرمایا کہ چچا ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘پڑھ لیں تاکہ قیامت کے دن میں اپنے رب کے حضور آپ کی سفارش کرسکوں۔ لیکن انھوں نے کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا اور کفر کی حالت میں دنیا سے چل بسے۔ نبی کریم (ﷺ) بڑے دل آزوزدہ ہو کر وہاں سے اٹھے اور کئی دن تک آپ کی طبیعت پر اس واقعہ کا اثررہا۔ رب کریم نے آپ کے دل کو ڈھارس دی اور یہ اصول بیان فرمایا کہ اے نبی بے شک آپ کسی کی ہدایت کے بارے میں کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں لیکن ہدایت دینا ” اللہ“ کا کام ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت کا طالب ہے جو ہدایت کا طالب ہوگا اللہ تعالیٰ اسے ضرور ہدایت عطا فرمائے گا۔ یہاں ہدایت سے مراد نیکی کی طرف رہنمائی نہیں بلکہ ہدایت قبول کرنا اور اس پر چلنے کی توفیق ہے۔ ( عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ﴿إِنَّکَ لاَ تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ﴾۔۔ الآیَۃَ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے چچا ابو طالب کو موت کے وقت فرمایا کہ لا الہ الاللہ کہہ دو ! میں قیامت کے دن اس بات کی گواہی دوں گا لیکن اس نے انکار کردیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جس کے لیے آپ ہدایت پسند کریں۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ (ﷺ) وَذُکِرَ عِنْدَہُ عَمُّہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ تَنْفَعُہُ شَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیُجْعَلُ فِی ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ، یَغْلِی مِنْہُ دِمَاغُہُ) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قصۃ ابی طالب] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا۔ آپ (ﷺ) کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا شاید اسے میری شفاعت قیامت کے دن فائدہ دے۔ اسے آگ پر کھڑا کیا جائے گا۔ وہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہوگی جس سے اس کا دماغ کھولے گا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ انہیں جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔“ نبی کریم (ﷺ) اس بات پر از حد حریص تھے کہ سب لوگ اسلام کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سارے بندے اس کی بارگاہ میں سر نیاز جھکائیں بالخصوص اپنے قبیلے اور رشتہ داروں کے متعلق نبی کریم کی انتہائی آرزو تھی کہ ان میں سے کوئی بھی نعمت ایمان سے محروم نہ رہے، اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اے حبیب! ہدایت دینا آپ کا کام نہیں کہ جس کو چاہے ہدایت دے دے کیونکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ کون اس قابل ہے کہ اس کے دل میں ایمان کی شمع فروزاں کی جائے کس میں اس نعمت جلیلہ کو قبول کرنے کی استعداد ہے۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن : جلد سوئم) مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) اپنی مرضی سے کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ 2۔ جو ہدایت کا طالب ہوتا ہے ” اللہ“ اسے ہدیات سے سرفراز کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ ہی ہدایت دینے والا ہے : 1۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ:120) 2۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص :56) 3۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 4۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 5۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر :3) 6۔ نبی اکرم (ﷺ) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص :56)