وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَىٰ بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اس کے بعد کہ ہم نے پہلی نسلوں کو ہلاک کردیا، جو لوگوں کے لیے دلائل اور ہدایت اور رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
فہم القرآن: (آیت43سے44) ربط کلام : فرعون اور اس کے لاؤ لشکر غرق کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تختیوں کی شکل میں تورات عطا کی گئی۔ رب ذوالجلال نے فرعون اور اس کے لشکر کو بحر قلزم میں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو باسلامت بحر قلزم عبور کروایا اور پوری دنیا میں ان کی عزت کو دوبالا فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر وادیِ طی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ یہاں کئی اہم واقعات بھی رونما ہوئے۔ جن میں سب سے بڑا اور اہم واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت فرمائی جس میں بنی اسرائیل کے لیے نصیحت و عبرت کے واقعات، پہلی اقوام کی تباہی کے اسباب اور اس تورات کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث قرار دیا۔ تاکہ بنی اسرائیل اس سے رہنمائی حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ نزول تورات کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی وضاحت فرما دی گئی کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ اس وقت بھی موجود نہ تھے جب اللہ تعالیٰ نے طور کے مغربی پہلو میں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور دو عظیم معجزے عطا فرمائے تھے۔ طور کے مغربی پہلو میں آپ (ﷺ) کے موجود نہ ہونے سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے جس واقعے کی تفصیلات بتائی جا رہی ہیں وہ کسی سے سنی سنائی اور پڑھی پڑھائی باتیں نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے جو قرآن مجید کی صورت میں حضرت محمد (ﷺ) پر نازل کی جا رہی ہے۔ بصیرت کی جمع بصائر، ہے جس سے مراد ایسے حقائق ہیں جن کو انسان ہدایت کی نیت سے پڑھے تو یقیناً ہدایت سے سرفراز ہوگا۔ قرن کی جمع ” قرون“ ہے جو تین میں سے کسی ایک معنٰی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1۔ ایک نسل۔ 2۔ کسی قوم کا ایک دور۔ 3۔ بعض اہل علم نے ایک صدی کو ایک قرن قرار دیا ہے۔ تورات اور قرآن کی تعلیم کے بارے میں فرمان : ﴿الرٰکِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ﴾[ ابراہیم :1] ” الر۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں، ان کے رب کے حکم سے اور اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بہت تعریف والا ہے۔“ ﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ﴾[ ابراہیم :5] ” اور بلا شبہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے اور انہیں اللہ کے دن یاد دلائے، بلاشبہ اس میں ہر شخص کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر اور شکر کرنے والا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے تورات کو لوگوں کی ہدایت اور رحمت کے طور پر نازل فرمایا تھا۔ 2۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کے دائیں جانب نبوت عطا کی گئی تو نبی آخر الزماں (ﷺ) اس وقت موجود نہ تھے۔ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) ہر جگہ حاضر، ناظر نہ تھے اور نہ ہیں : 1۔ مریم کی کفالت کے وقت رسول اللہ (ﷺ) حاضر نہ تھے۔ (آل عمران :44) 2۔ اخوان یوسف کے مکر کے وقت رسول اللہ (ﷺ) موجود نہ تھے۔ (یوسف :102) 3۔ یہ غیب کی خبریں ہیں نہ آپ اس کے متعلق جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔ ( ہود :49) 4۔ آپ طور کی مغربی جانب اس وقت موجود نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت کے منصب پر سرفراز کیا۔ ( القصص :44)