وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ
اور یہ کہ اپنی لاٹھی پھینک۔ تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے، جیسے وہ ایک سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کرچل دیا اور پیچھے نہیں مڑا۔ اے موسیٰ ! آگے آ اور خوف نہ کر، یقیناً تو امن والوں سے ہے۔
فہم القرآن: (آیت31سے35) ربط کلام : عظیم معجزات ملنے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے خوفزدہ ہونا۔ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر زمین پر رینگنے لگا۔ اتنا بڑا سانپ دیکھ کر حضرت موسیٰ ڈر کر بھاگنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا موسیٰ ڈرو نہیں بلکہ آگے ہو کر پکڑ لو۔ یہ پہلے کی طرح لاٹھی بن جائے گا اور آپ مامون رہیں گے۔ اپنا ہاتھ بغل میں دبا کر نکال یہ بغیر کسی تکلیف کے چمکتا ہوا ظاہر ہوگا خوف کے وقت ہاتھ کو بغل میں دبا لینا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر چھوڑ کر مدین اس لیے گئے تھے کہ ان سے سہوًا ایک شخص قتل ہوگیا تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا مؤقف سنے بغیر فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے قتل کردیا جائے اس بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے درخواست کی کہ میرے رب مجھ سے ان کا ایک شخص قتل ہوگیا تھا اس لیے میں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی عرض کی کہ میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) گفتگو کے اعتبار سے زیادہ فصیح زبان رکھتا ہے۔ اس لیے اسے میرا معاون بنائیں تاکہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی التجاء قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ عنقریب ہم آپ کے بھائی کے ساتھ آپ کو مضبوط کریں گے۔ آپ دونوں کامیاب ہو نگے فرعون اور اس کے ساتھی ہمارے معجزات کی وجہ سے تمھارے قریب بھی نہیں آسکیں گے۔ آپ اور آپ کے تابعدار فرعون اور اس کے درباریوں پر غالب رہیں گے۔ بائیبل میں ید بیضاء کی ایک اور ہی تعبیر کی گئی ہے جووہاں سے نکل کر ہمارے ہاں کی تفسیروں میں بھی رواج پا گئی، وہ یہ کہ حضرت موسیٰ نے جب بغل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو پورا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید تھا، پھر جب دوبارہ اسے بغل میں رکھا تو وہ اصلی حالت پر آگیا۔ یہی تعبیر اس معجزے کی تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ فرعون کو برص کی بیماری تھی جسے وہ چھپائے ہوئے تھا اس لیے اس کے سامنے یہ معجزہ پیش کیا گیا کہ دیکھ۔ یوں آناً فاناً برص کا مرض پیدا ہوتا ہے اور کافور ہوجاتا ہے۔ لیکن اوّل تو ذوق سلیم اس کا انکار کرتا ہے کہ کسی نبی کو برص کا معجزہ دے کر ایک بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے۔ دوسرے اگر فرعون کو مخفی طور پر برص کی بیماری تھی تو ید بیضا صرف اس کی ذات کے لیے معجزہ ہوسکتا تھا اس کے درباریوں پر اس معجزے کا کیا رعب طاری ہوتا۔ لہٰذا صحیح بات وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی کہ اس ہاتھ میں سورج کی سی چمک پیدا ہوجاتی تھی۔ جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔ قدیم مفسرین میں سے بھی بہتوں نے اس کے یہی معنی لیے ہیں۔ (تفہیم القرآن) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کرنے کے ساتھ ہی لاٹھی کا معجزہ عطا فرمایا اور ید بیضا بھی عطا کیا گیا۔ 2۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ 3۔ فرعون اور اس کے سردار سرکش لوگ تھے۔ تفسیر بالقرآن:غلبہ حاصل کرنے والے لوگ : 1۔ مومن ہی ہر حال میں بلند رہیں گے۔ (آل عمران :139) 2۔ مومن اللہ کا لشکر ہیں اور غالب رہیں گے۔ (المجادلۃ:22) 3۔ اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران :160) 4۔ ہم نے ان کی مدد کی سو وہ غالب آگئے۔ (الصّٰفٰت :116) 5۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:249)