تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ
یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 2 سے 4) ربط کلام : سورۃ نمل کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ اے لوگو! عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھلائے گا، کیونکہ آپ کا رب کسی کے اچھے اور برے عمل سے غافل نہیں ہے۔” اللہ“ کی نشانیوں میں یہ بھی اس کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل جیسی مظلوم قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے وسائل کے لحاظ سے کمزور شخص کو فرعون جیسے ظالم شخص سے نجات دی اور بنی اسرائیل کو پوری دنیا میں معزز بنایا۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اہل مکہ اور آل فرعون کے کردار میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد : ” اے موسیٰ ! تو اور تیرا بھائی میرے معجزات لے کر دونوں فرعون کے ہاں جاؤ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے۔ ہاں میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرنا اور دیکھو اسے نرمی سے سمجھاناکہنا شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرجائے۔ انھوں نے عرض کی اے پروردگار ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا مزید سرکشی اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ڈرنے کی ضرورت نہیں میں تمھارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں لہٰذا اس کے پاس جاؤ اور اسے کہنا ہم تیرے رب کے رسول ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے آزاد کر دے اور انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی نشانی لے کر آئے ہیں۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی اختیار کرتا ہے۔“ [ طٰہٰ: 42۔47] اہل تاریخ بنی اسرائیل پر فرعون کے بد ترین مظالم کی دو وجوہات تحریر کرتے ہیں۔ ایک جماعت کا نقطۂ نظر ہے کہ نجومیوں نے فرعون کو اس بات کی خبر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تیرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے خوف سے فرعون نے ان کے بچوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو باقی رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یاد رہے بنی اسرائیل کے جوانوں کا قتل عام اور ان کی بیٹیوں کو باقی رکھنے کا معاملہ دو مرتبہ ہوا۔ ایک دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت اور دوسری مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے بعد۔ (المؤمن :23) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس، آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بے خانماں مسلمانوں کے خلاف مکہ والوں کی حمایت کررہے ہو۔ تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا۔ تمہاری ماؤں اور بہو‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں۔ ظالم مظلوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے بدترین مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے دشمن کو ذلّت کی موت مارتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا تھم گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دنیا کا بد ترین مغرور، سفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والاڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا۔ اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ ﴿قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُہٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًا حَتّی اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآئِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ آلْئَنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ فَالْیَوْمَ نُنَجَّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْن﴾[ یونس : 89تا92] ” فرمایا بلا شبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے، پس دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستے کی پیروی نہ کرنا جو نہیں جانتے اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہا کہ میں ایمان لایا یقیناً سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں سے ہوں۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید کی آیات اور احکام بالکل واضح ہیں۔ 2۔ قرآن مجید میں بیان کردہ واقعات افراط، تفریط اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہیں۔ 3۔ فرعون نے طبقاتی کشمکش کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط کر رکھا تھا۔ 4۔ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑتا تھا۔ 5۔ فرعون فساد کرنے والوں میں سب سے بڑا فسادی تھا۔ تفسیر بالقرآن: فرعون کے مظالم اور اس کا بدترین کردار : 1۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص :4) 2۔ بنی اسرائیل قتل وغارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : 127تا129) 3۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص : 5، 6) 4۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر :10) 5۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی تھی۔ (التحریم :11)