أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات کو بنایا، تاکہ اس میں آرام کریں اور دن کو روشن۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں ان کے غور و فکر کے لیے رات اور دن میں دلائل۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی پہچان اور قیامت پر ایمان لانے کے لیے اپنی قدرتوں پر غور کرنے کا بار بار حکم دیا ہے ان میں اکثر نشانیاں ایسی ہیں جن سے ہر شخص کو صبح و شام واسطہ پڑتا ہے اِ ن نشانیوں میں سے قرآن مجید نے رات اور دن کو کئی مرتبہ نشانی اور دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہاں رات کے بارے میں فرمایا ہے کہ رات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ لوگ اس میں سکون پائیں اور دن کو روشن بنایا تاکہ لوگ اپنا کام کاج اور ضرورتیں پوری کرسکیں۔ کیا لوگوں نے رات اور دن کے بارے میں نہیں سوچا کہ ان میں کون کون سے فوائد رکھے گئے ہیں ؟ اگر رات اور دن کے بارے میں لوگ غور کریں تو یقیناً ان میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے لیے بے شمار دلائل ہیں۔ یہاں رات اور دن کو قیامت کی نشانیوں کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا یقینی ہے اسی طرح ہی زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد جی اٹھنا یقینی بات ہے۔ رات کو انسان اور ہر جاندار چیز نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے جو موت کے مترادف ہے۔ دن کے طلوع ہونے کے ساتھ ہر جاندار اپنے اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ رات کے بعد دن کو اٹھنا اور دن کے بعد رات کو سونا ہر ذی روح کے لیے لازم ہے، اسی طرح قیامت کے بعد اٹھنا بھی لازم ہے۔ جس طرح کوئی جاندار ہمیشہ سویا نہیں رہ سکتا اسی طرح مرنے کے بعد کسی نے ہمیشہ مردہ نہیں رہنا اسے ہر حال میں اٹھایا جائے گا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون کے لیے بنایا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے دن کو لوگوں کی ضروریات کے لیے روشن بنایا ہے۔ 3۔ ایمان لانے والوں کے لیے رات اور دن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ تفسیر بالقرآن: رات اور دن کے فوائد : 1۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف :54) 2۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر :5) 3۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید :6) 4۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان :47)