سورة النمل - آیت 80

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک تو نہ مردوں کو سناتا ہے اور نہ بہروں کو اپنی پکار سناتا ہے، جب وہ پیٹھ پھیر کر پلٹ جائیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت80سے81) ربط کلام : قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی طرف سے رہنمائی ہے لیکن اس سے روحانی طور پر زندہ لوگ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے حق اور باطل کے درمیان واضح طور پر ایک امتیاز قائم کردیا ہے۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ رسول معظم (ﷺ) حق بات پر گامزن اور واضح طور پر حق کی دعوت دینے والے تھے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ آپ (ﷺ) کی تکذیب اور قرآن مجید کا انکار کرتے تھے، اور کرتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ کے مخالفین روحانی طور پر مردہ ہوگئے تھے اور ہیں۔ اس لیے نہ صرف وہ حق بات سننے کے بارے میں گونگے، بہرے ہوچکے ہیں بلکہ جب ان کے سامنے حق بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں نبی اکرم (ﷺ) کو اپنے رب پر توکل کرنے کی ہدایت کی گئی اور آپ کو تسلی دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ اے نبی! آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور ان لوگوں کو بھی نہیں سنا سکتے جو بہرے ہونے کے ساتھ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس طرح آپ اندھو کو بھی ہدایت کے راستے پر نہیں چلا سکتے آپ تو صرف ان لوگوں کو سنا اور سمجھا سکتے ہیں جو اپنے دماغ سے سوچتے ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، ہماری آیات پر ایمان لاتے ہوئے تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہدایت پانے کے لیے لازم ہے کہ انسان کی روح زندہ ہو اور حق بات سے دور بھاگنے کی بجائے اسے توجہ کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہو۔ جو شخص روحانی طور پر مردہ، کانوں سے بہرہ اور آنکھوں سے اندھا ہو مزید یہ کہ حق بات سے دور بھاگنے والاہو، اسے ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے ؟ ہدایت تو وہی شخص پائے گا جو حق بات کو توجہ کے ساتھ سننے اور اسے تسلیم کرنے کا مصمم ارادہ کرے اور اللہ سے اس کی توفیق طلب کرے۔ ( عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ إِنَّمَا قَال النَّبِیُّ () إِنَّہُمْ لَیَعْلَمُون الآنَ أَنَّ مَا کُنْتُ أَقُولُ حَقٌّ وَقَدْ قَال اللَّہُ تَعَالَی ﴿إِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَی﴾) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی عذاب القبر] ” سیدہ عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ کنویں کے کنارے کھڑے ہو کر آپ (ﷺ) کا مشرکین کے مقتولوں کو مخاطب کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس وقت یقیناً جانتے ہیں کہ جو کچھ میں نے انہیں کہا وہ برحق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے) “ ﴿وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ﴾ [ فاطر : 22۔23] ” زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ جیسے چاہتا ہے سناتا ہے آپ قبروں والوں کو ہرگز نہیں سنا سکتے۔ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔“ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) اندھے، بہرے اور الٹے منہ بھاگنے والوں کو نہیں سنا سکتے تھے۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) دل کے اندھے کو گمراہی سے سے نہیں نکال سکتے تھے۔ 3۔ ہدایت وہ شخص پا سکتا ہے جو حق بات کو توجہ اور تسلیم کرنے کی نیت سے سنے۔ تفسیر بالقرآن: ہدایت پانے کی چند بنیادی شرائط : 1۔ اللہ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 2۔ کسی کا ہدایت پانا اللہ کا احسان ہے۔ (الحجرات :17) 3۔ رسول اکرم (ﷺ) کی تابعداری ہدایت کی ضمانت ہے۔ (النور :54) 4۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 5۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر :3) 6۔ ایماندار لوگ اپنے رب سے ہدایت اور آسانی مانگتے ہیں۔ ( الکہف :10) 7۔ ہدایت پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (آل عمران :8)