قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے غیب نہیں جانتا اور وہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
فہم القرآن: (آیت 65 سے 66) ربط کلام : توحید کے دلائل کا تسلسل۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر چیز کا خالق اور رازق ہے بلکہ وہ اپنی مخلوق کے ماضی، حال اور مستقبل کو پوری طرح جانتا ہے یہ حقیقت سچائی کی انتہا کو پہنچ چکی اور اس کے خلاف کوئی عقلی اور نقلی دلیل موجود نہیں ہے جس بناء پر ہر دور کا مشرک یہ حقائق تسلیم کرتا رہا اور کرتا رہے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے سوا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا، آسمان سے بارش اتارنے والا، بارش سے نباتات اگانے والا، زمین کو ٹھہرانے اور جمانے والا، زمین میں نہریں جاری کرنے والا، زمین پر مضبوط پہاڑ ٹھہرانے والا، دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کرنے والا، معذور اور مجبور کی دعا ئیں قبول فرمانے والا، بیماری اور مصیبت کو دور کرنے والا، لوگوں کو دوسرے کا جانشین بنانے والا، بحر و بر میں مسافروں کی رہنمائی کرنے والا، بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلانے والا، مخلوق کو فی البدیع پیدا کرنے والا‘ موت کے بعد اپنی طرف لوٹانے والا اور ذی روح کو رزق دینے والا۔ ایک ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح زمین و آسمان کے غیب کو جاننے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ تو پھر کسی زندہ یا مردہ بزرگ کو اس کی خدائی میں شریک کرنے کا کیا معنٰی ؟ مشرک جن کو داتا، حاجت روا اور مشکل کشاء، دستگیر، غریب نواز کہتے ہیں ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ انھیں کب اٹھایا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والوں کا علم ختم ہوچکا ہے یعنی ان کے پاس علم ہے ہی نہیں۔ حقیقت ہے کہ مشرک آخرت کا منکر ہوتا اگر اسے یقین ہو کہ قیامت کو اس سے شرک کے بارے میں سوال ہوگا تو کبھی شرک نہ کرے، مگر اس کے باوجود آخرت کے منکر شک میں مبتلا ہیں جس بنا پر قیامت پر یقین کرنے کے بارے میں اندھے ہوچکے ہیں۔ جنہیں ” اللہ“ کے سوا یا اس کے ساتھ پکارتے ہیں انھیں علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے ؟ اللہ کے ہاں یہ درست نہیں کہ وہ ہر کسی کو اپنی تقدیر یعنی امور غائب سے مطلع کرتا رہے۔ ایک تو اس لیے کہ ہر شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بھید پانے اور برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی اطلاع کے لیے پیغمبروں کو منتخب کر رکھا ہے۔ ان میں بھی جس پیغمبر کو جتنا چاہا امور غیب سے آگاہ فرمایا۔ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اگر کافر اور منافق بھی اخلاص کے ساتھ ایمان لائیں تو مخلص ایمانداروں کی طرح یہ بھی اجر عظیم پائیں گے۔ بعض لوگ پیروں‘ فقیروں اور علماء کے حوالے سے ایسے واقعات لکھتے اور بیان کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ بھی غیب کے واقعات جانتے تھے۔ یہاں دو ٹوک الفاظ میں اس عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک انبیاء کا معاملہ ہے ان کے بھی درجنوں واقعات ہیں کہ وہ غیب کا علم نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء کرام خود تو غیب کا علم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں عطائی علم غیب ضرور تھا۔ عطائی کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا اور عطا کردہ علم۔ علم غیب کی یہ تعریف بذات خود مضحکہ خیز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انبیاء یا کسی کو کوئی بات بتلا دے تو وہ غیب کس طرح رہا۔ یہ بات علم غیب کی تعریف میں نہیں آتی اس لیے رسول کریم (ﷺ) کی زبان اطہر سے کئی بار یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ از خود یہ اعلان فرمائیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ مسائل: 1۔ زمینوں، آسمانوں کا غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 2۔ مدفون بزرگوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ 3۔ عقیدۂ توحید اور آخرت کے بارے میں مشرک اندھے پن کا ثبوت دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کا علم کوئی نہیں جانتا : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود :31) 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود :69) 3۔ حضرت لوط (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود :77) 4۔ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام :59) 5۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف :188) 6۔ آپ فرما دیں کہ غیب کا علم اللہ ہی کو ہے۔ (یونس :20) 7۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 8۔ اللہ کے خزانوں اور زمین و آسمان کے غائب کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( الانعام :50)