فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ
پس دیکھ ان کی چال کا انجام کیسا ہوا کہ بے شک ہم نے انھیں اور ان کی قوم، سب کو ہلاک کر ڈالا۔
فہم القرآن: (آیت 51سے53) ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام۔ 1۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود :45) 2۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی ترقی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر 83۔84) 3۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر :31) صالح (علیہ السلام) کی قوم کے انجام میں لوگوں کے لیے درس عبرت ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی کی چال کارگر نہیں ہوتی جو بھی مکروفریب سے کام لے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے صالح (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نشان عبرت بنا دے گا اور ان کی بستیاں آج بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا مَرَّ النَّبِیُّ (ﷺ) بِالْحِجْرِ قَالَ لَا تَدْخُلُوا مَسَاکِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ أَنْ یُّصِیبَکُمْ مَا أَصَابَہُمْ إِلَّا أَنْ تَکُونُوا باکِینَ ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَہٗ وَأَسْرَعَ السَّیْرَ حَتَّی أَجَازَ الْوَادِیَ) [ رواہ البخاری، کتاب المغازی، باب نزول النبی الحجر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (ﷺ) حجرکے مقام سے گزرے تو آپ نے فرمایا ان لوگوں کے مقام سے نہ گزرا کرو۔ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہیں تم پر وہ آفت نہ آن پڑے جو ان پر آن پڑی تھی۔ اگر گزرنا نا گزیر ہو تو روتے ہوئے گزرا کرو۔ پھر آپ نے اپنا سر جھکایا اور سواری کو تیز کیا یہاں تک کہ اس وادی سے گزر گئے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَمَرَہُمْ أَنْ لاَ یَشْرَبُوا مِنْ بِئرِہَا، وَلاَ یَسْتَقُوا مِنْہَا فَقَالُوا قَدْ عَجَنَّا مِنْہَا وَاسْتَقَیْنَا فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَطْرَحُوا ذَلِکَ الْعَجِینَ وَیُہَرِیقُوا ذَلِکَ الْمَاءَ وَیُرْوَی عَنْ سَبْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ وَأَبِی الشُّمُوسِ أَنَّ النَّبِیّ (ﷺ) أَمَرَ بِإِلْقَاء الطَّعَامِ وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ عَنِ النَّبِیَّ (ﷺ) مَنِ اعْتَجَنَ بِمَائِہِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وَإِلَی ثَمُودَ أَخَاہُمْ صَالِحًا﴾] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے حجر میں اترے آپ (ﷺ) نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اس کنواں سے نہ پانی پئیں اور نہ اس سے پلائیں انہوں نے کہا ہم نے تو اس سے آٹا گوندہ لیا ہے اور پانی بھر لیا ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا آٹے کو پھینک دو اور پانی بہا دو۔ حضرت سبرۃ بن معبد اور ابی الشموس بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے کھانا گرانے کا حکم دیا۔ حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں آپ نے کھانا گرانے کا انہیں حکم دیا تھا جنہوں نے اس پانی سے آٹا گوندھا تھا۔“ مسائل: 1۔ تباہ شدہ اقوام کی تاریخ اور ان کے آثارات کو عبرت کی نگاہ سے پڑھنا اور دیکھنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ تفسیر بالقرآن: تقویٰ اور اس کے دنیا و آخرت میں فوائد : 1۔ صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود :49) 2۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر :45) 3۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس :26) 4۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : 31تا33) 5۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس :62) 6۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :34) 7۔ متقی کے کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5) 8۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد :35)