وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ
اور اس شہر میں نو (٩) شخص تھے، جو اس سرزمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔
فہم القرآن: (آیت48سے50) ربط کلام : قوم کے نمائندوں کا حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مذموم منصوبہ۔ صالح (علیہ السلام) کی قوم کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحجر کے نام سے موسوم ہے جو مدینہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے جسے مدائن صالح کہتے ہیں یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ وسیع رقبے میں ان کی عمارتوں کے گھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ جن کو قوم ثمود نے پہاڑتراش تراش کر بنایا تھا ان گھنڈرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں اس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہوگی اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے نوبڑے سردار تھے۔ جنھوں نے مل بیٹھ کر منصوبہ بنایا کہ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردینا چاہیے۔ اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کے لیے انھوں نے آپس میں قسمیں اٹھائیں اور یہ بھی طے کیا کہ اگر صالح (علیہ السلام) کا کوئی وارث اس کیس کو اٹھانا چاہے تو ہم کہیں گے کہ اس کام میں ہم کسی طرح بھی ملوث نہیں ہیں۔ سب کو یہی بات کہنا چاہیے تاکہ ہم سچے ثابت ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے رات کے وقت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایمان والے ساتھیوں پر یکبارگی حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ لفظ مکر کے بارے میں سورۃ آل عمران کی آیت کی 54تفسیر میں ذکر ہوچکا ہے کہ مکر کا لفظ لوگوں کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنٰی مکر و فریب اور سازش ہوتا ہے اگر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے نو نمائندے تھے گویا کہ نوقبائل یا نو پارٹیاں تھیں۔ جو سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردینا چاہیے۔ جس طرح انھوں نے صالح (علیہ السلام) کے خلاف منصوبہ بندی کی اور اس کے نتیجہ میں تباہ و برباد ہوئے۔ اسی طرح رسول اکرم (ﷺ) کے خلاف اہل مکہ نے منصوبہ بندی کی اور ذلیل ہوئے۔ ﴿وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾[ الانفال :30] ” اور جب کفر کرنے والے لوگ آپ کے خلاف تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو ملک بدر کردیں وہ سازش کررہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والاہے۔“ مسائل: 1۔ قوم کے نو لیڈروں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے خلاف مذموم منصوبہ بنایا۔ 2۔ قوم کے نمائندوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو قتل کرنے کی قسمیں اٹھائیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مذموم منصوبہ کو ناصرف ناکام کیا بلکہ انھیں تباہ و برباد کردیا۔ تفسیر بالقرآن: انبیائے کرام (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو جلانے کی کوشش کی۔ ( الانبیاء :68) 2۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ ( الاعراف :88) 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ۔ ( المؤمن :28) 4۔ آپ غمزدہ نہ ہوں اور کفار کے مکرو فریب سے تنگی محسوس نہ کریں۔ (النحل :127) 5۔ نبی کریم کو حق سے پھیر دینے کے لیے کافروں نے سازش کی۔ (البقرۃ:109) 6۔ کفار نے نبی اکرم کو قتل کرنے اور ملک بدر کرنے کی سازش کی۔ (الانفال :30)