فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَٰكَذَا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ
پھر جب وہ آئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے اور ہم اس سے پہلے علم دیے گئے تھے اور ہم فرماں بردار تھے۔
فہم القرآن: (آیت 42سے43) ربط کلام : تخت کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ملکہ کو سوال اور اس کا جواب۔ جونہی ملکہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ شاہانہ انداز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آئی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے تخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار فرمایا۔ ” کیا آپ کا تخت اس طرح کا ہے ؟“ اس نے کہا جی ہاں ! کیوں نہیں یہ وہی ہے ہمیں تو آپ کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے۔ اس لیے ہم تابعدار ہو کر آئے ہیں۔ تخت کی پہچان اور ملکہ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی ہی دانا عورت تھی۔ جس نے سفارتی نمائندوں کے ذریعے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کردار اور اقتدار کو سمجھ لیا اور فیصلہ کیا کہ اپنی قوم کو رسوا اور ملک کو تباہ کرنے کی بجائے۔ اس حکمران کے پاس پہنچ کر براہ راست مذاکرات کرنے چاہییں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے تبدیل شدہ تخت کو پہچان لیا جس سے اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت کا مزید اندازہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شکل و صورت اور پیغمبرانہ گفتگو اور حیادارانداز دیکھا تو اسے یقین ہوگیا یہ کوئی دنیا دار حکمران نہیں کہ جس نے محض کشور کشائی کے لیے مجھے دھمکی دی ہے یہ تو اللہ کا خاص بندہ ہے جو میری اور میری قوم کی ہدایت کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے ملکہ نے شاہانہ انداز کی بجائے عاجزانہ انداز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کی دعوت کا اعتراف کیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اظہار فرمایا۔ قرآن مجید نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے سوا سورج کی عبادت کرتی تھی کیونکہ اس نے کافر قوم میں پرورش پائی تھی۔ جو نہی اس کا ماحول تبدیل ہوا اور اسے عقیدہ توحید کی دعوت دی گئی تو اس نے اپنی بادشاہت کی پرواہ کیے بغیر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ ماحول کے اثرات : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَوْ یُنَصِّرَانِہٖ أَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَہِیمَۃِ تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃَ ہَلْ تَرٰی فیہَا جَدْعَاءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماقیل فی أولاد المشرکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا ہر نو مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح جانور اپنے بچے کو جنم دیتا ہے تو کیا تم ان میں کسی کو مقطوع الاعضا پاتے ہو؟ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یا تو تجھے تحفہ دے گا یا تو اس سے خریدلے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا۔ بھٹی پھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تو اس سے دھواں کی بو محسوس کرے گا۔“ مسائل: 1۔ انسان کی ہدایت اور گمراہی میں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ 2۔ ذہین اور عقلمند وہ شخص ہے جو حق کو پہچانے اور اسے تسلیم کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ 3۔ عقلمند کے لیے ایمان کے مقابلہ میں دنیا کے اقتدار اور اختیارات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ 4۔ مشرکانہ ماحول عقیدہ توحید سمجھنے اور ماننے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔