سورة النمل - آیت 29

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس (ملکہ) نے کہا اے سردارو! بے شک میری طرف ایک عزت والا خط پھینکا گیا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 29سے31) ربط کلام : خط موصول ہوتے ہی ملکہ سبا نے اپنے وزیروں، مشیروں کا اجلاس بلایا اور انہیں کو خط پڑھ کر سنایا۔ ملکہ سبا نے خط موصول ہوتے ہی اسے اپنے وزیروں اور مشیروں کے سامنے پیش کیا اور اس پر مثبت ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے وزراء کرام ! میرے پاس سلیمان (علیہ السلام) کا قابل احترام خط پہنچا ہے جس کی ابتداء اللہ مہربان اور رحم کرنے والے کے نام سے کی گئی ہے۔ اس میں ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ میرے مقابلے میں سرکشی کرنے کی بجائے تابعدار ہو کر میرے حضور پیش ہوجاؤ۔ مشرک ہونے کے باوجود ملکہ نے خط کی ابتداء یعنی ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ سے اندازہ لگالیا تھا کہ خط لکھنے والے کے نظریات کیا ہیں۔ اس لیے اس نے اس سرکاری مراسلے کو تکریم کے ساتھ قوم کے زعماء کے سامنے پیش کیا۔ جس سے ملکہ بلقیس کی ذہانت اور شرافت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ قدیم زمانے سے یہ اصول چلا آرہا ہے کہ سفارت کا کوئی بھی انداز ہو اس کا پورا پورا احترام کیا جانا چاہیے۔ حالانکہ خط میں بھی انتباہ تھا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنا نام خط کے مضمون کے بعد لکھنے کی بجائے پہلے لکھا تھا حالانکہ اس زمانے میں بڑے لوگ اپنا نام خط سے پہلے اور ان کی رعایا کے لوگ اپنا نام خط کے مضمون کے بعد لکھتے تھے۔ ملکہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے رعب کی وجہ سے دونوں باتوں کو حرف نظر کردیا۔ مرسل الیہ سے پہلے خط پر اپنا نام لکھنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کا طریقہ ہے تاہم کسی بڑی شخصیت کو خط لکھتے وقت اپنا نام خط کے آخر میں لکھا جائے تو اہل علم کے نزدیک یہ بھی جائز ہے۔ خط اور تحریر سے پہلے ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ لکھنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ بِسْمِ اللہ کی فضیلت اور اہمیت : رسول کریم (ﷺ) کے حکم کے مطابق ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنا چاہیے۔ آپ (ﷺ) کی سنت مبارکہ اور ارشاد ات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے سے مراد ہر موقعہ پر بسم اللہ کے الفاظ پڑھنا نہیں۔ بلکہ کام اور موقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور اس کا نام لینا ہے تاکہ اسم مبارک سے ابتدا کرتے ہوئے کام اور موقعہ کا احساس آدمی کو رب کریم کے قریب کردے جیسا کہ سونے اور نیند سے بیدار ہونے کے وقت دعا کے الفاظ احساس دلاتے ہیں۔ ہر آدمی کو ایسے ہی مرنا اور اٹھنا ہوگا۔ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے تصور ابھرتا ہے کہ بڑائی اور کبریائی اللہ کی ذات کو زیبا ہے۔ یہ اللہ کا مال ہے اس پر کسی غیر کا نام لینے کی بجائے مالک حقیقی کا نام ہی لینا چاہیے۔ سواری پر برا جمان ہوتے ہوئے لفظ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ“ سے دعا کرنے سے یہ خیال آنا چاہیے کہ جس مالک نے اس کو میرے تابع کیا ہے مجھے بھی اس ذات کبریا کا تابع فرمان ہونا چاہیے۔ سواری کو حاصل اور مطیع کرنا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : [ النحل :98] ” جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کرو توشیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ گویا کہ موقعہ کی مناسبت سے ہر کام کا آغاز رب کریم کے مبارک نام سے ہونا چاہیے۔ رسول اللہ (ﷺ) کے ارشاد میں یہ فلسفہ پایا جاتا ہے کہ جب کوئی کام شروع کیا جائے تو اس پر اللہ کا نام لیتے ہوئے احساس پیدا ہو کہ جو کام کرنا چاہتاہوں وہ میرے لیے جائز بھی ہے یا نہیں۔ اگر کام حرام اور ناجائز ہو تو مومن کو اللہ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اس کام سے باز آنا چاہیے۔ جائز کام کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے سے آدمی کا عقیدہ تازہ اور پختہ ہوجائے گا کہ اس کام کی ابتدا رحمن ورحیم کی مہربانی کا نتیجہ ہے اور اس کی تکمیل بھی اسی کے کرم سے ہوگی۔ (کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُفْتَحُ بِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ اَبْتَرُ اَوْقَالَ اَقْطَعُ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین] ” جس کام کی ابتدا اللہ کے ذکر سے نہ کی جائے وہ بے برکت اور نامکمل ہے۔“