أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا، انھیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، پھر ان میں سے ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے، اس حال میں کہ وہ منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 23 سے 25) ربط کلام : اہل کتاب ہی پہلے کفر کرنے والے ہیں ان کے کفر کی بنیاد ان کا من ساختہ عقیدہ ہے کہ ہم چند دن جہنم میں جائیں گے حالانکہ وہاں ایک کے اعمال دوسرے کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں گے۔ اے نبی (ﷺ) ! کیا آپ نے اہل کتاب کے رویّے پر غور نہیں فرمایا کہ جب بھی انہیں تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تو بلاوا سنتے ہی ان میں ایک گروہ سراسر منہ پھیر لیتا ہے۔ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ ان کا دعو ٰی ہے کہ ہمیں جہنم کی آگ مَس نہیں کرے گی سوائے چند دنوں کے جن میں ہمارے بزرگوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی۔ دراصل ان کا خود ساختہ دین ہی ان کے لیے فریب نفس اور ہدایت کے لیے سدِّراہ بن چکا ہے۔ ان کی خود فریبیوں کا عالم یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرار دیتے ہیں اور لوگوں میں یہ تاثّر پیدا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چند دنوں کے علاوہ ہمیں ہرگز سزا نہیں دے گا۔ افسوس ! یہی فریب کاریاں اور خوش فہمیاں آج امّتِ محمدیہ کی غالب اکثریت میں پیدا ہوچکی ہیں۔ کوئی آل رسول کا نام لے کر اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے‘ کسی نے عشق رسول کا نعرہ لگا کر لوگوں کو شریعت سے آزاد کردیا ہے اور کچھ لوگوں نے دنیا میں ہی بہشتی دروازے کھول رکھے ہیں اور ان کے مذہبی پیشوا اور پیر ومرشد برملا اپنے مریدوں کو یہ سبق دیتے ہیں کہ جنت میں جانے کے لیے نیک اعمال کی ثانوی حیثیت ہے۔ بزرگوں کو راضی رکھنا جنت کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ اسی بناء پر مرشد پکڑنا اور کسی امام کی تقلید ضروری قرار دی جاتی ہے۔ ان خود ساختہ دعوؤں اور وعدوں کی نفی کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اس وقت ان لوگوں کی کسمپرسی کا کیا عالم ہوگا؟ جب اللہ تعالیٰ محشرکے میدان میں انہیں اپنے حضور جمع کرے گا؟ وہاں نہ تو نسب کام آئے گا نہ بزرگ فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ ہی پر کشش نعرے سودمند ہوں گے۔ وہاں تو مجرموں کو دیکھتے ہی ہر کوئی ان سے دور بھاگ جائے گا۔ یہاں تک کہ جنم دینے والی ماں، پرورش کرنے والا باپ، فدا ہونے والے بھائی، اور جانثار بیوی، بیٹے اور بیٹیاں بھی ساتھ چھوڑ جائیں گی۔ پیر مریدوں سے اور مرید اپنے پیروں سے رفو چکر ہوجائیں گے اور ہر شخص کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزاء وسزا دی جائے گی کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں ہونے پائے گا۔ مسائل : 1۔ اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دی جائے تو ان کی اکثریت اعراض کرتی ہے۔ 2۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ہم چند دن ہی جہنم میں جائیں گے۔ 3۔ یہودیوں کے خود ساختہ دین نے ہی انہیں گمراہ کردیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو جمع کرے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پورا پورا بدلہ دے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن : کتاب اللہ سے اعراض کا نتیجہ : 1۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف :57) 2۔ قرآن سے منہ پھیرنے والوں کی سزا۔ (السجدۃ:22) 3۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: 124، 125) 4۔ اعراض اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: 100، 101) 5۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کرتے ہیں۔ (البقرۃ:99) 6۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل :75)