فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ
پھر اگر وہ تیری نافرمانی کریں تو کہہ دے کہ بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔
فہم القرآن : (آیت 216 سے 220) ربط کلام : ا لدّاعی کا کام بار بار دعوت دینا ہے اگر لوگ نہیں مانتے تو اسے اپنے رب کے ساتھ نماز میں رابطہ رکھنا اور اسی پر توکل کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) رات کی تاریکیوں میں رو، رو کر دعائیں کرتے کہ بارِ الٰہا ! ان لوگوں کو ہدایت سے سرفراز فرما دے۔ لوگ ہدایت حاصل کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھے جا رہے تھے، جس پر آپ کو انتہائی غم ہوتا، اس صورت حال کے پیش نظر آپ کو دو طرح سے تسلی دی گئی۔ ان لوگوں سے کھلے الفاظ میں کہہ دیں کہ میں تمہارے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوں اور نہ میں تم سے ڈرتا ہوں۔ کیونکہ میرا بھروسہ ” اللہ“ پر ہے وہی مجھے کافی ہے۔ چاہے گا تو حق کو غلبہ عطا فرمائے گا وہ نہایت ہی مہربان ہے اور وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ داعی کا کام لوگوں کو سمجھانا ہے اگر اس کے مخاطب سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اسے دل گرفتہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کسی نے اپنے عمل کا جواب دینا ہے۔ یہی بات سرور دو عالم (ﷺ) کو سمجھائی گئی کہ ایمان نہ لانے والوں کو یہ بتلائیں کہ میں تمھارے اعمال سے برئ الذمہ ہوں۔ مجھے حکم ہے میں اپنے رب پر بھروسہ کروں۔ جو ہر بات پر غالب اور نہایت مہربان ہے۔ اس کا یہ بھی فرمان ہے کہ جب میں کھڑا ہوں یا چلتا پھرتا یا اس کے حضور سجدہ کررہا ہوں۔ وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہوتا ہے اور میری دعا کو سنتا اور اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ اس سے پہلے آپ کو حکم دیا گیا ہے اللہ پر توکل کرتے ہوئے آپ ان لوگوں کے فکر و عمل سے برأت کا اعلان کریں پھر آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ، آپ نماز میں کھڑے ہوں یا بازار میں چلتے پھرتے ہوں یا اپنے رب کے حضور سجدہ کررہے ہوں آپ کا رب آپ کو ہر حال میں جانتا اور آپ کی ہر بات کو سننے والا ہے۔ اسی بات کو گیا رھویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” اے نبی تم جس حال میں بھی ہوتے ہو، اور قرآن سے جو بھی سناتے ہو اور ( لوگو) جو کام بھی تم کر رہے ہوتے ہو، ہم ہر وقت تمہارے سامنے موجود ہوتے ہیں جبکہ تم اس میں مشغول ہوتے ہو، زمین اور آسمان میں کوئی زرہ برابر چیز بھی ایسی نہیں جو آپ کے رب سے چھپی ہو۔ ذرہ سے بھی چھوٹی یا اس سے بڑی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو لوح محفوظ میں درج نہ ہو۔“ (یونس :61) ” حضرت موسیٰ اور ہارون کو حکم ہوا کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ دونوں نے عرض کی پروردگار ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا ہم پر ٹوٹ پڑے گا۔ فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔“ (طٰہٰ : 43تا46) عبادات میں سب سے افضل عبادت فرض نماز ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ جسے نفل نماز قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنٰی ہوتا ہے ” زائد“ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی، بیشی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک پہلے آپ (ﷺ) پر تہجد فرض تھی۔ بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ تہجد کا لفظ ” جہد“ سے نکلاہے۔ جس کا مطلب ہے۔ ” نیند کے بعد بیدار ہونا“ ظاہر ہے یہ کام ہمت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجدکچھ دیر سونے کے بعداٹھ کر پڑھنی چاہیے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے عام نوافل ہوں گے یہ تہجد شمار نہیں ہوتے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے مطابق رات کے کسی پہر میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ تہجد کے لیے افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد ہے۔ ﴿تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ [ السجدۃ:16] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتا ہے : کون ہے مجھ سے طلب کرئے میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ [ رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل] مسائل : 1۔ کوئی شخص دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ 2۔ رسول کریم (ﷺ) ہر وقت اپنے رب کی نگرانی میں ہوا کرتے تھے۔ 3۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے۔ 4۔ انسان جس حالت میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا، جانتا اور اس کی ہر بات کو سنتا ہے۔