وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔
فہم القرآن : (آیت 214 سے 215) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ وہ اپنے عزیز و اقرباء کو توحید کی دعوت دیں، اور شرک سے ڈرائیں۔ نبوت کا پہلا کام اور پیغام لوگوں کو اللہ کی خالص عبادت کرنے کی دعوت دینا ہے۔ دعوت کا فطری اور صحیح طریقہ ہے کہ داعی عقیدہ توحید پر ایمان رکھتے ہوئے سب سے پہلے اپنے عزیز و اقرباء کو عقیدہ توحید کی دعوت دے اور جو اس دعوت کو قبول کرے ان کے ساتھ شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئے۔ اس حکم کی اتباع میں آپ (ﷺ) نے اپنے عزیز و اقرباء کو بار بار اس بات کی دعوت دی اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے ان سے آپ خصوصی طور پر شفقت و مہربانی فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی شفقت و مہربانی کی قرآن مجید نے اس طرح ترجمانی فرمائی ہے۔ ” یقیناً تمھارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے جسے تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، تمھاری بھلائی کے بارے میں بہت چاہت رکھنے والا ہے، ایمان والوں پر بہت شفقت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔“ (التوبہ :128) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کھڑے ہو کر فرمانے لگے۔ اے قریش کے لوگوتم اپنی جانیں بچا لو۔ میں اللہ کے سامنے کسی کے کام نہ آسکوں گا۔ اے بنو عبدمناف میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے میری پھوپھی صفیہ میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ میرے مال سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کے سامنے میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] تفسیر بالقرآن : دعوت کا فطری انداز : 1۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ (التحریم :6) 2۔ اے پیغمبر اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ (الشعراء :214) 3۔ نرم انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ:44) 4۔ وعظ میں مؤثر انداز اختیار کرنے کا حکم (النساء :63) 5۔ جھگڑے کی بجائے احسن انداز اختیار کرنے کا حکم۔ (النحل :125) 6۔ اگر آپ نرم خو نہ ہوتے تو یہ لوگ آپ سے دور بھاگ جاتے لہٰذا معاف اور درگزر کرتے رہیں۔ ( آل عمران :159)