سورة الشعراء - آیت 168

قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُم مِّنَ الْقَالِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس نے کہا بے شک میں تمھارے کام سے سخت دشمنی رکھنے والوں سے ہوں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 168 سے 175) ربط کلام : گذشتہ سے پیوشہ۔ قوم کا جواب : کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت :29) قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب فرشتے (لڑکوں) کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے۔ تو بدمعاش قوم ان سے بے حیائی کرنے کی نیت سے حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں دوڑتے ہوئے آئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے حلال ہیں۔ یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ جب وہ بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے لوط نے یہ بھی فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود :78) بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمھاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں۔ ان حالات میں لوط کہنے لگے آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری ہے۔ کاش تمھارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ (ہود : 79، 80) ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلّی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کرو۔ یہ بے حیا تمھاراکچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جاسکتے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے اور یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چنانچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : 69تا83) سورۃ القمر : آیت، 37تا 38میں فرمایا کہ ظالموں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں پر زیادتی کرنا چاہی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مسخ کردیا۔ سورۃ الصافات : آیت، 137تا 138میں ارشاد ہوا یقیناً لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے جب ہم نے انھیں اور اس کے اہل کو نجات دی ہاں ایک بڑھیا کو پیچھے رہنے دیا پھر ہم نے باقی کو ہلاک کردیا۔ اے اہل مکہ تم صبح شام ان بستیوں سے گزرتے ہو لیکن اس کے باوجود عقل نہیں کرتے۔ (الصّٰفٰت : 135تا138) ﴿فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ﴾ [ ھود : 82، 83] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا اور تابڑ توڑپکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ 351مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ 1۔ اس کے پانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2۔ اسکے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ مسائل : 1۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو شہر سے نکال دینے کی دھمکی دی۔ 2۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اپنے اور گھر والوں کے لیے نجات کی دعا کی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو ان کی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا کیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش فرمائی۔ تفسیر بالقرآن : لوط (علیہ السلام) کی قوم کا بد ترین کردار اور انجام : 1۔ ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف :80) 2۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھا۔ (الاعراف :81) 3۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود :78) 4۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود :80) 5۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر اس پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر :74) 6۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود :82) 7۔ ہم جنسی کی سزا۔ (الاعراف :84)