سورة الشعراء - آیت 116

قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا اے نوح! یقیناً اگر تو باز نہ آیا تو ہر صورت سنگسار کیے گئے لوگوں سے ہوجائے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 116 سے 118) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم کی دھمکی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال سمجھایا۔ (العنکبوت :14) لیکن قوم نے انھیں بدتر سے بدترین جواب دیا یہاں تک کہ انھوں نے کہا اے نوح ! اگر تو عقیدہ توحید کی دعوت سے باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے جان سے مار دیں گے۔ ” نوح نے عرض کی اے میرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت دی لیکن میری دعوت دینے سے وہ اور زیادہ دوری اختیار کرتے گئے۔ جب بھی میں نے انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے آپ پر کپڑے ڈال لیے۔ ہٹ دھرمی اور تکبر اختیار کیا پھر میں نے انہیں سرعام دعوت دی اور اعلانیہ اور پوشیدہ طریقے سے بھی سمجھایا۔“ (نوح : 5تا9 ) ” اس کے بعد نوح نے عرض کی کہ میرے پروردگار ! یہ لوگ میرے کہنے پر نہیں چلے۔ یہ ان کے تابع ہوئے ہیں جن کو ان کے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا۔ اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے۔ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا وَدّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔ میرے رب انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو تو ان کو اور گمراہ کر دے۔“ ( نوح : 21تا24) حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی دعا کی اے رب کریم ! قوم نے مجھے کلیتاً ٹھکرا دیا ہے۔ میری درخواست ہے کہ آپ میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ فیصلہ سے مراد اللہ کا عذاب ہے مجھے اور میرے ایماندار ساتھیوں کو اس سے بچائے رکھنا۔ ﴿ وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَ تَزِدِ الظٰلِمِیْنَ اِِلَّا تَبَارًا﴾ [ نوح : 26تا28] ” اور پھر نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر نہ رہنے دے۔ اگر تو ان کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کرینگے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی بدکار اور ناشکری ہوگی۔ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان دار مردوں اور ایمان دار خواتین کو معاف فرما ! ظالم لوگوں کے لیے اور زیادہ تباہی بڑھا۔ مسائل : 1۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے دعوت حق قبول کرنے کی بجائے نوح (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔ 2۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے عذاب کا مطالبہ کیا۔ 3۔ نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کن عذاب کی درخواست کی۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) اور صلحاء کی نافرمان قوم کے لیے بددعائیں : 1۔ اے ہمارے پروردگار! ان کے اموال کو نیست و نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت فرما۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا)۔ (یونس :88) 2۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک کافر بھی نہ چھوڑنا۔ (نوح :26) 3۔ اے اللہ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ لوط (علیہ السلام) کی بددعا (العنکبوت :30) 4۔ اے ہمارے رب! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بد دعا)۔ (الاعراف :89)