كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ
نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔
فہم القرآن : (آیت 105 سے 110) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا رد عمل بیان کرنے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور ان کی قوم کا ردّ عمل بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان کے بھائی حضرت نوح (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ اپنے عقیدہ اور عمل کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ یقین جانو کے میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں بس تمھیں اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرنا چاہیے۔ میں منصب نبوت کے حوالے سے تم سے کسی معاوضہ کا طلب گار نہیں۔ میرا اجر میرے رب نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب کے بارے میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ انھوں نے مرسلین کی تکذیب کی حالانکہ ان قوموں کا واسطہ اپنے اپنے رسول سے پڑا تھا اور انھوں نے اپنے اپنے رسول کی ہی تکذیب کی تھی۔ اس کے باوجود حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے کہ انھوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دین کی تعلیم یہ ہے کہ وقت کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ پہلے رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے کہ وہ واقعی اپنے اپنے دور میں ” اللہ“ کے مبعوث کیے ہوئے رسول تھے۔ جو شخص اس اصول کی پاسداری نہیں کرتا گویا کہ وہ تمام انبیاء (علیہ السلام) کی تکذیب کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ ” اللہ“ کی توحیدتھا۔ ان قوموں نے اپنے اپنے دور میں نہ صرف توحید خالص کا انکار کیا بلکہ اپنے اپنے نبی کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اس طرح فکر و عمل کے اعتبار سے یہ قومیں ایک جیسارویہ رکھتی تھیں۔ جس بنا پر ان اقوام کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اوّل آخر سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے باطل عقیدہ اور برے کردار سے تائب ہو کر میری اتباع کرو۔ رسول کی آمد کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کریں چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) بار بار قوم کو اپنی اطاعت کے بارے میں ارشاد فرما تے رہے۔ انھوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں نبوت کے کام پر تم سے کسی معاوضے کا طلب گار نہیں ہوں۔ جس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ سوچو اور غور کرو۔ جس کی خاطر اس قدر مصائب اور دکھ اٹھا رہا ہوں اس کے پیچھے میری کوئی غرض مضمر نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمّے نبوت کی ذمہ داری لگائی ہے تاکہ اسے امانت و دیانت کے ساتھ سر انجام دیتا رہوں۔ یہی میرے منصب کا تقاضا ہے جسے شب و روز پورا کرنے کی کوششکر رہا ہوں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لیے رسول امین کا لفظ بول کر یہ بھی واضح کیا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس کا پیغام پہنچانے میں پوری ذمہ دار اور امانت دار ہوں اور تم بھی مجھے کردار اور امانت کے حوالے سے امین تسلیم کرتے ہو۔ یہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کا کردار ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی اپنی قوم میں صادق اور امین سمجھے جاتے تھے سرور دو عالم (ﷺ) نے صفا پہاڑی پر اپنی دعوت پیش کرنے سے پہلے لوگوں سے استفسار فرمایا کہ اگر میں کہوں اس کے پہاڑ کے عقب سے کوئی لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے ؟ لوگوں نے بیک زبان کہا تھا۔” مَا جَرَ بَّنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا“ ہم نے ہمیشہ آپ (ﷺ) کو سچاپایا۔ (سیرت ابن ہشام ) تقویٰ کا مفہوم : (قَدْ قِیْلَ اَنَّ عُمَرَبْنِ الْخَطَّاب (رض) سَأَلَ اُبَیِّ بَنْ کَعْبٍ عَنِ التَّقْوَیْ، فَقَالَ لَہٗ أَمَا سَلَکْتُ طَرِیْقًا ذَاشَوْکٍ ؟ قَالَ بَلٰی قَالَ فَمَا عَمِلْتَ ؟ قَالَ شَمَرْتُ وَاجْتَہَدَتْ، قَالَ فَذٰلِکَ التَّقْوَیٰ) [ تفسیر ابن کثیر : جلد1] ” روایت ہے کہ عمر (رض) بن خطاب نے حضرت ابی (رض) بن کعب سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا تو کعب (رض) نے کہا کہ کیا آپ کبھی خار دار راستے پر نہیں گزرے حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ کیوں نہیں حضرت ابی کہنے لگے تو اس وقت آپ کیا کرتے ہیں حضرت عمر کہنے لگے میں کپڑے سمیٹ کر اور کانٹوں سے بچتے ہوئے اس راستہ سے گزرتا ہوں۔ حضرت ابی نے کہا یہی تقویٰ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ ہُ فَقَالَ أَوْصِنِیْ فَقَالَ سَأَلْتَ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) مِنْ قَبْلِکَ أُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَإِنَّہٗ رَأْسُ کُلِّ شَیْءٍ۔۔) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا : مجھے نصیحت کیجئے ابو سعید خدری (رض) نے کہا : تو نے مجھ سے اس چیز کا سوال کیا ہے جس کے متعلق میں نے تجھ سے پہلے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا تھا۔ آپ (ﷺ) نے مجھے فرمایا کہ میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتاہوں کیونکہ تقویٰ ہر خیر کا سرچشمہ ہے۔“ مسائل : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی تکذیب کی۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم امین سمجھتی تھی۔ 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) بلامعاوضہ دین اور قوم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن : تقویٰ اور اس کے تقاضے : 1۔ مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا اور سچ بولنا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ:177) 2۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقوٰی ہے۔ (المائدۃ:88) 3۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقوٰی ہے۔ (طٰہٰ:132) 4۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج :32) 5۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ:197) 6۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النساء : 31تا33) 7۔ متقی کی خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5) 8۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :34) 9۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : 61تا64)