سورة الشعراء - آیت 92

وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان سے کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جنھیں تم پوجتے تھے؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 92 سے 95) ربط کلام : گمراہ لوگوں سے قیامت کے دن سوال۔ حساب و کتاب کا فیصلہ ہوجانے کے بعد گمراہ لوگوں سے سوال کیا جائے گا کہ جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا وہ تمھاری مدد کرسکتے ہیں یا کسی قسم کا بدلہ لے سکتے ہیں ؟ قیامت کے دن گمراہ پیر اور ان کے مرید، عابد اور معبود لیڈر اور ان کے ور کروں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر کے کہا جائے گا کہ ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہو تو کرو۔ لیکن کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا پھر عابد اور معبود تمام کو اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ جن کے ہاتھ پاؤں چومے جاتے تھے جن کے قول وعمل کو سند مانا جاتا تھا، جن کے حضور نذریں پیش کی جاتی تھیں۔ جب قیامت کے دن حقیقت سامنے آئے گی، ہر پیروی کرنے والوں کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ ہمارے رہبر ہمیں کہاں لے آئے ہیں۔ ور کر اور مرید بدکردار پیروں اور لیڈروں کو مجرم ٹھہرائیں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ عالم آخرت کا یہ عبرت ناک نقشہ کھینچا گیا ہے تاکہ اندھی تقلید کرنے والے دنیا میں آنکھیں کھولیں اور کسی کے پیچھے چلنے سے پہلے دیکھ لیں کہ وہ ٹھیک بھی جا رہا ہے یا نہیں۔ ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ﴾ [ حٰم السجدہ :29] ” کافر اس وقت کہیں گے کہ اے پروردگار ان جنوں اور انسانوں کو ہمارے سامنے لا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں وہ ذلیل ہو کر رہیں۔“ ﴿وَ قَالُوْا رَبنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۔ رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا﴾ [ الاحزاب : 67۔68] ” وہ کہیں گے اے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔ اے رب ان کو دوگنا عذاب دے اور ان پر لعنت برسا۔“ ﴿کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَاحَتّی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًاقَالَتْ اُخْرٰیھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْن﴾ [ الاعراف :38] ” ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے سے پہلے لوگوں پر لعنت کرے گا یہاں تک کہ جب سب وہاں جمع ہوجائیں گے تو بعد میں آنے والا گروہ پہلے گروہ کے متعلق کہے گا کہ اے ہمارے رب ! یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ انہیں آگ کا دوہرا عذاب دیا جائے۔ رب تعالیٰ فرمائے گا سب کے لیے دوہرا عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن غیروں کی عبادت کرنے والوں کو سوال کریں گے۔ 2۔ کیا اللہ کے سوا کوئی تمھاری مدد کرسکتا ہے یا بدلہ لے سکتا ہے۔ 3۔ گمراہ لوگوں کو شیطان اور ان کے معبودوں سمیت جہنم میں اوندھے منہ پھینکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن گمراہ پیروں اور مریدوں، لیڈروں اور ور کروں، مقتدی اور برے علماء کا آپس میں تکرار کرنا : 1۔ جہنم میں مرید، پیروں، ور کر، لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ دور کرسکتے ہو۔ (ابراہیم :21) 2۔ جب جہنمی اپنے سے پہلے لوگوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف :38) 3۔ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت :25) 4۔ کاش آپ ظالموں کو اس وقت دیکھیں جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو نگے تو ایک دوسرے کے سامنے تکرار کرتے ہوئے کمزوراپنے بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے جب کہ ان کے بڑے اس سے انکاری ہونگے۔ (سبا : 31، 32) 5۔ قیامت کے دن پیروکار کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے براءت کا اظھار کریں گے (البقرۃ:165) 6۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ:166) 7۔ جہنم میں چھوٹے، بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم ہمارے عذاب سے کچھ کم کرسکتے ہو۔ بڑے کہیں گے کہ ہم سب جہنم میں رہیں گے۔ (المومن : 47۔48)