وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو رات کو لے چل، یقیناً تمھارا پیچھا کیا جائے گا۔
فہم القرآن: (آیت 52 سے 56) ربط کلام : جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور انھوں نے فرعون کی دھمکیوں کے مقابلہ میں پوری استقامت کا مظاہرہ کیا جس پر فرعون کے مظالم میں انتہا درجہ کی تیزی آئی جس وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہجرت کا حکم ہوا۔ جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد نہ معلوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کتنی مدت تک شب و روز دعوت کے کام میں مصروف رہے لیکن حالات دن بدن دگرگوں ہوتے گئے۔ جن کا ہولناک منظر قرآن مجید کی آیات کے حوالہ سے ملاحظہ فرمائیں۔ ” جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔“ (البقرۃ:49) انہوں نے کہا اے موسیٰ تیرے آنے سے پہلے ہمیں تکلیف پہنچائی گئی اور تیرے آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنائے گا، پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟“ (الاعراف :129) ” ہم نے موسیٰ اور اسکے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھروں کو منتخب کرلو اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا لو۔ نماز قائم کرو اور ایمان والوں کو خوشخبری دو۔“ (یونس :87) ” فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف اور ان کے فتنہ میں مبتلا کرنے کی وجہ سے موسیٰ پر اس کی قوم کے کچھ نو جوانوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا۔ بلا شبہ فرعون زمین میں سرکش اور حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔“ (یونس :83) ” فرعون بولا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔ وہ اپنے رب کو بلا لے مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں وہ تمہارے دین کو بدل نہ دے یا ملک میں فساد برپا نہ کرے۔“ (المومن :26) ” موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو۔“ (الدخان :20) ” فرعون نے کہا ہامان میرے لیے ایک محل بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر آسمان تک پہنچ جاؤں۔“ (المومن : 36۔37) ان حالات کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ لیکن یاد رکھنا کہ فرعون تمھارا پیچھا کرے گا۔ جونہی فرعون کو معلوم ہوا تو اس نے انتظامیہ اور اپنے بڑے بڑے لوگوں کو اکٹھا کیا اور انھیں کہا کہ بنی اسرائیل تھوڑے سے لوگ ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمیں غضبناک کردیا ہے اور ہم ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر انے کا حکم دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آگاہ فرمایا کہ فرعون اور اس کے لشکر تمھارا پیچھا کریں گے۔ 3۔ فرعون اور اس کے لشکروں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ تفسیر بالقرآن: انبیائے کرام (علیہ السلام) کی ہجرت : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (العنکبوت :26) 2۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حکم سے بنی اسرائیل کے ساتھ ہجرت کی۔ ( الدخان :23) 3۔ کفار نے آپ (ﷺ) کو ہجرت پر مجبور کردیا (التوبۃ:40) 4۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے اس کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ (البقرۃ :218) 5۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین ٹھکانہ میسر آئے گا۔ (النحل :41) 6۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین رزق عطا کیا جائے گا۔ (الحج :58)