سورة آل عمران - آیت 1

لم

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

الۤمۤ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 4) ربط کلام : سورۃ البقرۃ کا اختتام ایمان کے بنیادی ارکان اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنے کی دعا پر ہوا ہے۔ سورۃ آل عمران کی ابتداء میں بتلایا گیا ہے کہ جس اللہ پر تم نے ایمان لانا ہے۔ وہ ہمیشہ قائم دائم اور زندہ جاوید رہنے والا ہے۔ اسی نے لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے تورات و انجیل نازل فرمائی اور اب اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نافرمانوں سے سخت انتقام لے گا۔ حروف مقطعات کے بعد اس عظیم سورۃ کی ابتدا توحید باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ یہاں توحید کے دو ایسے پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔ جن میں جلالت وجبروت کے لہجے میں اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے کابیان ہوا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کی ذات موجود اور قائم تھی۔ جب ہر چیز ختم ہوجائے گی تو اس وقت بھی اس کی ذات کبریا موجود اور قائم ہوگی گویا کہ وہ ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والی ذات ہے اور کائنات کو اپنی حکمت اور مرضی کے مطابق قائم رکھے ہوئے ہے۔ جس طرح اور جس وقت تک چاہے ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے ان اوصاف میں اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں۔ جب کائنات میں کوئی ہستی اس جیسی نہیں تو سب کا وہی معبود ومسجود ہونا چاہیے اور ہے۔ اسی ذات اعلیٰ نے حضرت محمد (ﷺ) کی ذات اقدس پر کتا بِ حق نازل فرمائی اور اسی نے اس سے پہلے تورات اور انجیل نازل فرمائی تھیں جو اپنے اپنے دور میں لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھیں۔ اب قرآن مجید نازل فرمایا جو پہلی کتابوں کے من جانب اللہ ہونے کی تصدیق اور ان میں لوگوں نے جو ترمیم واضافے کیے ان کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے حق اور باطل واضح ہوجائے اس امتیاز اور حق کو پہچاننے کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سے اس جرم کا بدلہ لینے پر غالب ہے۔ قرآن مجید کے بنیادی اور مرکزی اوصاف میں ایک خوبی یہ ہے کہ یہ پہلی کتابوں کے حقیقی مضامین کی تصدیق کرنے کے ساتھ قیامت تک کے لیے حق وباطل کے درمیان حد فاصل اور نگران کی حیثیت رکھتا ہے۔ ” اور ہم نے تیری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی جو اپنے سے ماقبل کتب کی تصدیق کرنے والی اور ان پر نگران و نگہبان ہے۔“ [ المائدۃ:48] گویا کہ حق وباطل کا فیصلہ کرنا لوگوں کی عقل ودانش اور کسی پارلیمنٹ کے اختیار پر نہیں بلکہ قرآن لوگوں کی رہنمائی کا ضامن اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کا معیار ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے تب تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔“ مسائل : 1۔ اللہ ہی اکیلا معبود اور وہی ہمیشہ زندہ و قائم رہنے والا ہے۔ 2۔ اس نے تورات، انجیل اور قرآن مجید نازل فرمایا۔ 3۔ اب تورات اور انجیل نہیں صرف قرآن ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ 4۔ قرآن مجید پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتا ہے۔ 5۔ انکار کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہوگا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سخت بدلہ لینے والا ہے۔ تفسیربالقرآن : فرقان کا مفہوم : 1۔ قرآن فرقان ہے۔ (الفرقان :1) 2۔ معجزات فرقان ہیں۔ (الانبیاء :48) 3۔ بدر کا معرکہ فرقان ہے۔ (الانفال :41) 4۔ فرقان سے مراد قوت فیصلہ بھی ہے۔ (الانفال :29) 5۔ حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب یعنی قرآن مجید کو فرقان کہا گیا ہے۔ (البقرۃ:185)