الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا
وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا، بے حد رحم والاہے، سو اس کے متعلق کسی پورے باخبر سے پوچھ۔
فہم القرآن: (آیت 59 سے 60) ربط کلام : جس زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات پر توکل کرنے کا حکم ہے وہ بڑا ہی مہربان ہے اور اسی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور خالقیت کے دلائل دیتے ہوئے یہ بات کئی مرتبہ بیان فرمائی ہے کہ اس نے زمینوں، آسمانوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا، زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد وہ عرش معلی پر اپنی شان کے مطابق مستوی ہوا۔ وہی رحم و کرم کا مالک اور خالق ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ کسی جاننے والے سے پوچھ لے۔ یہ جملہ کفار مکہ کے لیے بولا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام الرّحمن کا انکار کرتے تھے۔ جب نبی اکرم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کو الرّحمن کہہ کر پکارتے تو مشرکین مکہ اعتراض کرتے کہ ہمیں ایک خدا کو پکارنے کا حکم دیتا ہے اور خود دو خداؤں کو پکارتا ہے۔ کفار مکہ کو کہا جاتا ہے کہ الرّحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہوتا ہے۔” کیا ہم الرّحمن کو سجدہ کریں جسے ہم نہیں جانتے۔“ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو الرّحمن جان کر اس کے قریب ہوتے لیکن وہ الرّحمن کی دشمنی میں آکر نفرت میں مزید دور چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے نام میں جلال اور تمکنت پائی جاتی ہے اور الرّحمن کے لفظ اور نام میں رحم و کرم کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنا جلال اختیار فرمائے تو کوئی چیز زمین پر باقی نہ رہے۔ یہ توالرّحمن کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ جس وجہ سے وہ ہر قسم کی بغاوت اور نافرمانی کو صرف نظر کرتا ہے۔ الرّحمن اور الرّحیم کے نام اور صفات ” اللہ“ کو اس قدر پسند ہیں کہ قرآن مجید میں الرحمن کا نام 57مرتبہ اور الرحیم کا 116مرتبہ لیا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت : 180میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہترین نام ہیں تم اسے کسی نام کے ساتھ بھی پکار سکتے ہو۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مائَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ)[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب للہ مائۃ اسم غیر واحد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔“ (نام یاد کرنے سے مراد ان کے مطابق عقیدہ بھی ہونا چاہیے۔) رحمن فعلان کے وزن پر مبالغہ یعنی سپر ڈگری (Super degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔ الرحمن : لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے جب کہ لفظ ” الرحیم“ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے کیونکہ اس نے ابتدائے آفرینش سے لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَه ﴾] مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری رحمت وشفقت ہر آن ان کے قریب رہتی ہے۔ ﴿رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ﴾ [ الأعراف :156] ” میری رحمت سب پر محیط ہے۔“ ﴿کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾[ الأنعام :54] ” تمہارے رب نے اپنے آپ رحمت کو لازم کرلیا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کا دوسرا عظیم نام الرّحمن ہے۔ 2۔ مکہ کے مشرک ” الرّحمن“ کو نہیں مانتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: ” الرحمن“ کی رحمت کا ایک منظر : 1۔ اللہ ایک ہے‘ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ( البقرۃ:163) 2۔ اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (الاعراف :156) 3۔ سب کچھ جاننے کے باوجود نہایت ہی مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ (الحشر :22) 4۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پرلازم کرلیا ہے۔ (الانعام :54) 5۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 6۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف :56)