وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو بوجھ بٹانے والا بنا دیا۔
فہم القرآن: (آیت 35 سے 36) ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کے دشمن اور آسمانی کتابوں کا انکار کرنیوالی اقوام میں سے ایک قوم کا انجام۔ جن قوموں نے انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت اور آسمانی کتابوں کا انکار کیا ان میں سرفہرست حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے تورات عنایت فرمائی اور ان کی درخواست پر ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون نامزد فرمایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس قوم کی طرف جاؤ جنھوں نے ہمارے احکام اور ارشادات کو ٹھکرا دیا ہے۔ اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ (1) موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے دین ابراہیم حضرت یوسف کے دور مصر میں پہنچ چکا تھا۔ (2) کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ فرعون اور اس کے حواری موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلیم نہیں کرینگے اس لیے پہلے ہی ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جناب ہارون (علیہ السلام) نے ایک طویل مدت تک فرعون اور اس کے حواریوں کو سمجھایا، بڑے بڑے معجزات پیش کیے، فرعون نے ہر میدان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا مقابلہ کیا مگر ناکام رہا۔ یہاں تک کہ پورے ملک کے جادوگروں کو اکٹھا کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے مقابلے میں لاکھڑ کیا۔ جب جادوگروں نے حقیقت حال کو براہ راست دیکھا اور آزمایا تو انھوں نے سرعام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لانے کا اعلان کیا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اتنی بڑی حقیقت آشکارا ہونے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھی کفر و شرک پر قائم رہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سمندر میں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان آیات میں اسی بات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کے بھائی ہارون ( علیہ السلام) کو ان کا معاون نبی نامزد فرمایا۔ 3۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے پے درپے اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھکرایا جس کے نتیجہ میں انھیں تباہ و برباد کردیا گیا۔