وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا
اور انھوں نے کہا اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا کہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔
فہم القرآن: ربط کلام : کفار کا قرآن مجید پر اعتراضات کرنے کے بعد سروردو عالم (ﷺ) کی ذات پر اعتراضات۔ رسول اکرم (ﷺ) کی ذات اطہر پر اہل مکہ کو یہ بھی اعتراض تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ جو اس کی بات نہ ماننے والوں کو ڈرا دھما کر اس کی رسالت منواتا۔ یہاں تک ان لوگوں کا رسول اکرم (ﷺ) پر یہ اعتراض کہ آپ انسان ہونے کے ناطے سے کھانے پینے کے محتاج تھے اور سودا سلف کے لیے بازار جاتے یہ ایسا بوسیدہ اور قدیم ترین اعتراض ہے جو ہزاروں سال پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) پر بھی کیا گیا۔ قرآن مجید نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ کیوں نہیں آپ سے پہلے جتنے پیغمبر مبعوث کئے گئے وہ سب کے سب کھانے پینے والے انسان تھے انبیاء واضح الفاظ میں اس بات کا اعتراف کرتے کہ لوگو! انسانی حاجات کے حوالے سے ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں لیکن ہمارا امتیاز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ہمارا انتخاب کیا ہے (ابراہیم :11) جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہونا چاہیے تھا جو شخص آپ کی رسالت کا انکار کرتا فرشتہ اسے ڈرا دھما کر آپ کی رسالت ماننے پر مجبور کردیتا۔ یہ بات دو اعتبار سے غلط ہے ایک تو اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول (ﷺ) کی رسالت کو جبراً منوانا پسند نہیں فرمایا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر رسول کی تائید کے لیے فرشتہ بھیجا جاتا تو پھر اس قوم کو مہلت نہ دی جاتی۔ انکار کرنے پر قوم کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ مسائل: 1۔ رسالت مآب (ﷺ) پر کفار بیہودہ قسم کے اعتراضات اٹھایا کرتے تھے۔ 2۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) انسان تھے اور انسان ہونے کی وجہ سے وہ کھاتے، پیتے، بازار سے سودا سلف لاتے اور کام، کاج کرتے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبر کی رسالت کو جبری طور پر نہیں منوایا۔ ( تمام انبیاء کرام بشر تھے اسی سورت کی آیت 25کی تفسیر بالقرآن: ملاحظہ فرمائیں۔)