وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا
اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ نہیں ہے مگر ایک جھوٹ، جو اس نے گھڑ لیا اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس پر اس کی مدد کی، سو بلاشبہ وہ ایک ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 5 سے 6) ربط کلام : عقیدہ توحید کے مختصر دلائل کے بعد قرآن مجید پر اٹھنے والے اعتراضات کا مختصر جواب۔ اہل مکہ کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ وہ ایک ہی مجلس اور موقعہ پر کئی قسم کے قرآن مجید پر اعتراض اور سوالات اٹھاتے تھے ایک لمحہ ان کا الزام تھا کہ محمد (ﷺ) اپنی طرف سے عبارات بنا کر قرآن کی آیات کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ دوسرے لمحہ میں کہتے کہ قرآن بنانے میں اس کے اور لوگ بھی معاون ومددگار ہیں۔ تیسرے لمحہ ان کی زبان پر یہ الزام ہوتا کہ یہ قرآن تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اسے لکھوائی جاتی ہیں اور یہ صبح وشام ہمارے سامنے پڑھ دیتا ہے۔ اہل مکہ کی دریدہ دھنی حد سے گزر چکی تھی جس وجہ سے وہ کسی ایک بات اور الزام پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ ان کے پراپیگنڈہ کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کسی نہ کسی طریقہ سے قرآن مجید کے بارے میں لوگوں کا ذہن اس قدر الجھا دیا جائے کہ وہ اس کی طرف توجہ نہ کرسکیں اس لیے کبھی اسے جھوٹ کا پلندہ اور کبھی پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں قرار دیتے تھے۔ جہاں تک ان کے اس الزام کا تعلق ہے کہ چند لوگ ہیں جو آپ کی معاونت کرتے ہیں آپ لکھ کر اسے قرآن مجید کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ ایسا الزام ہے جس میں ایک حرف کی بھی سچائی نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں کا وہ نام لیتے تھے وہ تو انہی کے زرخرید غلام اور پرلے درجے کے ان پڑھ تھے۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ الزام برائے الزام کے سوا کچھ نہیں جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ آپ ان لوگوں سے سیکھنے کے بعد اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں سامنے قرآن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ الزام پہلے الزام سے بھی بڑھ کر دیوالیہ پن کا مظہر تھا کیونکہ رسول اکرم (ﷺ) نے زندگی بھر اپنے ہاتھ سے ایک لفظ بھی تحریر نہیں کیا۔ (العنکبوت :48) اہل مکہ کی ہرزہ سرائی اور دریدہ دھنی کو درخور اعتنا نہ سمجھنے کی وجہ سے صرف اتنا جواب دیا گیا ہے کہ اے پیغمبر (ﷺ) انہیں فرمائیں کہ اس قرآن کو اس ذات کبریا نے نازل فرمایا ہے جو زمین و آسمان کے راز جانتا ہے وہ تمہاری ہرزہ سرائی اور نیّت سے خوب واقف ہے۔ اس کے باوجود تمہیں مہلت دئیے جا رہا ہے کہ تم غور کرو اور تائب ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرنے اور مہربانی فرمانے والاہے۔ مسائل: 1۔ اہل مکہ قرآن مجید کو جھوٹ اور پہلے لوگوں کے قصہ کہانیاں قرار دیتے تھے۔ 2۔ اہل مکہ قرآن مجید کو آپ کی خود نوشت کتاب کہتے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ باربار انسان کو توبہ کا موقعہ دیتا ہے کیونکہ وہ معاف کرنے دینے والا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید پر کفار کے الزامات اور ان کا جواب : 1۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کہتے ہیں آپ کو تو ایک آدمی سکھا جاتا ہے۔ (النحل :103) 2۔ انہوں نے کہا قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (الفرقان :5) 3۔ انہوں کہا یہ تو اثر کرنے والا جادو ہے۔ (المدثر :24) 4۔ فرما دیجیے جن و انس اکٹھے ہو کر اس قرآن جیسا قرآن لے آئیں۔ (بنی اسرائیل :88) 5۔ فرما دیجیے دس سورتیں اس جیسی لے آؤاور اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو۔ (ہود :13) 6۔ فرما دیجیے ایک سورۃ اس جیسی لے آؤ اور جن کو بلانا چاہتے ہو بلالو۔ (یونس :38)