أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ بادل کو چلاتا ہے، پھر اسے آپس میں ملاتا ہے، پھر اسے تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے نکل رہی ہے اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں میں سے جو اس میں ہیں، کچھ اولے اتارتا ہے، پھر انھیں جس کے پاس چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے اور انھیں جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو لے جائے۔
فہم القرآن: (آیت 43 سے 44) ربط کلام : اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اس کی بادشاہی پر غور کرنے کے لیے بادلوں کی طرف توجہ کرو۔ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بادل بناتا اور اٹھاتا ہے پھر ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کے بعد بادلوں کو ایک دوسرے پر تہہ در تہہ کردیتا ہے اور پھر ان سے موسلادار بارش برساتا ہے۔ جو پہاڑوں کی مانند نظر آتی ہے اس میں بسا اوقات اولے بھی برستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے وہاں اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ فرماتا ہے۔ یہی صورت حال بارش کی ہے جو کہیں برستی ہے اور کہیں سے یوں ہی بادل گزر جاتے ہیں۔ بادلوں میں اس طرح بجلی چمکتی ہے جو آنکھوں کی بینائی کو حیرہ کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا ہے بصیرت رکھنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی ذات اور اس کی کبریائی کو پہچاننے کے لیے اَن گنت دلائل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں قدیم اور جدید فلکیات کا علم رکھنے والے سائنسدانوں نے ٹھیک اندازہ لگایا کہ سورج کی گرمی سے پانی بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور ہوائیں بخارات کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں پھر بخارات فضا کے ایسے خطہ میں پہنچتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر وہ بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ہوا بادلوں کو دھکیل کر کہیں سے کہیں لے جاتی ہے جب بخارات ایک خاص نقطہ انجماد پر پہنچتے ہیں تو بارش بن کر زمین پر برستے ہیں سائنسدانوں میں بےدین طبقہ نے اس سے آگے سوچنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی جس بناء پر وہ بارش کے سارے عمل کو فطری نظام سمجھ کر صرف نظر کردیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پورے عمل میں گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی دعوت دی ہے کیا بارش کو فطری عمل قرار دینے والے بےدین سائنسدان اس پر غور نہیں کرتے کہ آخر ہوا میں اتنی قوت اور کشش کس نے پیدا کی ہے جو بخارات کی صورت میں لاکھوں ٹن پانی اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے اور سورج نسبتاً قریب ہونے کے باوجود اس پانی کو اپنی حرارت کے ذریعے کیوں ختم نہیں کردیتا ؟ فضا میں وہ خطے کس نے پیدا کیے ہیں جہاں پہنچ کر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر ہواؤں کا رخ موڑنے والی کونسی قوت ہے جو ہوا کو ادھر سے ادھر جانے کا حکم دیتی ہے پھر سوچیے کہ وہ کونسی طاقت ہے جو کھربوں من پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو ایک دوسرے کے اوپر ایک مناسب فاصلہ پر رکھتے ہوئے سنبھالے ہوئے ہے پھر یہی بادل کہیں موسلادھار بارش کی صورت میں برستے ہیں اور کہیں بونداباندی کی صورت ٹپکتے ہیں۔ آخر بارش کا یہ نظام کس نے قائم کیا ہے دنیا میں کہیں بھی بادل یکدم نیچے نہیں گرتا۔ وہ قطرات کی شکل میں برستا اور اپنے وجود کو ختم کردیتا ہے۔ اب ان برسنے والے اولوں پر غور کیجیے کہ ایک ہی بادل سے بیک وقت اس قدر اولے برستے ہیں کہ زمین کئی کئی فٹ برف سے ڈھک جاتی ہے اور اسی زمین سے چند فٹ دور وہاں بارش میں ایک اولہ بھی نہیں پڑتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک فصل کو اولوں سے تباہ کردیتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہوئی دوسری فصل کو بارش سے نہلا تا اور اسے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے اب اس کے درمیان چمکنے اور گرجنے والی بجلی پر غور کریں جب وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ گرجتی اور چمکتی ہے۔ تو نہ صرف ڈر کے مارے لوگ سہم جاتے ہیں بلکہ بجلی کی چکاچوند روشنی میں ان کی بصارت بھی کام نہیں دیتی اگر اس موقع پر انسان کی نظر آسمانی بجلی کی شعاعوں سے ٹکرا جائے تو آنکھوں کی بینائی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس بجلی کی کڑک سے لوگ خوف کھاتے ہیں اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ (الرعد :14) یہی رب ذوالجلال رات اور دن کو بدلتا ہے آج تک کبھی نہیں ہوا اور قیامت تک نہ ہو سکے گا کہ کسی علاقہ میں رات دن کو بالکل ختم کردے اور دوسرے علاقہ میں دن رات کو ہڑپ کر جائے۔ پورے نظام میں سوچ وبچار کرنے والوں کے لیے نصیحت حاصل کرنے اور ہدایت پانے کے لیے بہت سے شواہد و قرائن ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِّنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَالُوْا صَدَقْتَ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودی نبی (ﷺ) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم! ہمیں بجلی کی کڑک کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے جہاں لے جانے کا اسے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ان میں آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ فرشتہ بادلوں کو ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں کو اٹھانے والا اور انہیں تہہ درتہہ فضا میں قائم رکھنے والاہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ 3۔ اللہ ہی بارش برساتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانی بجلی پر کنٹرول کرنے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہی رات اور دن کو مناسب اوقات میں تبدیل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: بارش کے بارے میں قرآن مجید کے دلائل : 1۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا اللہ ہے کیا اس کے ساتھ کوئی اور برسانے والا ہے ؟ (النمل :60) 2۔ وہ ذات جو ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے وہ ہوابھاری بادل اٹھاتی ہیں۔ (الاعراف :57) 2۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ :164) 3۔ قیامت برپا ہونے، بارش کے نازل ہونے، جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان :34) 4۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرمائے۔ (ہود :52)