قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 30 سے 31) ربط کلام : معاشرتی آداب سکھلانے کے بعد ذاتی اور انفرادی شرم و حیا کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام جرائم کے قلع قمع کے لیے خارجی اور داخلی محرکات کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ برائی اور بے حیائی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک خارجی اسباب اور داخلی محرکات پر قابو نہ پایاجائے۔ داخلی محرکات میں انسان کے مثبت اور منفی جذبات کا اثر اس کے فکر وعمل پر ہوتا ہے۔ دل میں کسی کے بارے میں احترام ہو تو آنکھوں میں عقیدت واحترام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ دل میں کسی کے بارے میں غصہ یا بے حیائی ہو تو آنکھیں اس کی چغلی کھاتی ہیں گویا کہ اچھے برے جذبات کی ترجمانی کرنا انسان کے چہرے اور آنکھوں کا فطری عمل ہے۔ ظاہری طور پر بے حیائی کی ابتدا آنکھوں سے ہوتی ہے اس لیے مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک جیسے الفاظ میں حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ شخصی کردار اور معاشرے کے لیے انتہائی پاکیزہ انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے جو کچھ لوگ کرتے ہیں۔ یہاں پہلے مومنوں کو حکم دیا گیا کیونکہ مرد کی نسبت عورت میں حیا زیادہ اور بے حیائی کے اظہار میں جرأت کم ہوتی ہے۔ مرد میں جرأت زیادہ ہونے اور عورتوں کے ساتھ فطری کشش کی بنا پر دیکھا گیا ہے کہ دیکھا دیکھی کی ابتدا مرد کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے مومنوں کو پہلے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہی دونوں حکم عورتوں کو دیے گئے ہیں نگاہیں نیچی رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ عورت بازار میں چلتے ہوئے ٹھوکریں کھاتی پھرے۔ نگاہیں نیچی رکھنے سے مراد کسی غیر محرم کو دانستہ طور پر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جہاں تک کسی پر اچانک نظر پڑنے کا معاملہ ہے اسے معاف کردیا گیا ہے بشرطیکہ اس طرف دوبارہ نظر نہ اٹھائی جائے۔ عورتوں کے لیے تیسرا حکم یہ ہے کہ وہ اپنا بناؤ سنگھار دانستہ طور پر غیر محرم کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں۔ سوائے اس کے جو فطری اور مجبوری کی وجہ سے ظاہر ہوجائے عورت کو اپنی زینت چھپانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں سے اپنے چہرے اور گریبان ڈھانپا کریں انہیں محرم رشتوں کے سوا کسی کے سامنے اپنی زیب وزینت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا اَدْرَکَ ذَالِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَاالْعَیْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَتَشْتَھِیْ وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ وَیُکَذِّبُہُ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ کُتِبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ نَصِیْبُہُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِکٌ ذالِکَ لَا مَحَالَۃَ الْعَیْنَانِ زِنَاھُمَا النَّظَرُ وَالْاُذُنَانِ زِنَاھُمَا الْاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلاَمُ وَالْیَدُ زِنَاھَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاھَا الْخُطٰی وَالْقَلْبُ یَھْوِیْ وَیَتَمَنّٰی وَیُصَدِّقُ ذَالِکَ الْفَرْجُ وَیُکَذِّبُہُ۔) [ رواہ البخاری : باب (وَحَرَامٌ عَلَی قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا أَنَّہُمْ لاَ یَرْجِعُونَ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر اس کے حصہ کے زنا لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پالے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے۔ انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے وہ شہوت پر آمادہ ہوتا ہے شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی روایت میں ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا آدم کے بیٹے پر اس کے زنا کا حصہ ثبت ہے وہ لازم طور پر اس کو پانے والا ہے۔ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا کلام کرنا ہے۔ ہاتھ کا زناپکڑنا ہے، پاؤں کا زنا چل کر جانا ہے، دل خواہشات کو ابھارتا اور آرزوئیں پیدا کرتا ہے۔ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ اِنِّیْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِّنَ الْاَنْصَارِ قَالَ فَانْظُرْ اِلَیْھَا فَاِنَّ فِیْ اَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْئًا) [ رواہ مسلم : باب نَدْبِ النَّظَرِ إِلَی وَجْہِ الْمَرْأَۃِ وَکَفَّیْہَا لِمَنْ یُرِیدُ تَزَوُّجَہَا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) کی خدمت میں ایک آدمی نے حاضر ہوا کر عرض کی کہ میں قبیلۂ انصار کی ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے دیکھ لینا کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ نقص ہوتا ہے۔“ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ لِی رَسُول اللَّہِ (ﷺ) اَ تُتْبِعِ النَّظَرَ النَّظَرَ فَإِنَّ الأُولَی لَکَ وَلَیْسَتْ لَکَ الأَخِیرَۃُ) [ رواہ احمد : مسند علی ابن ابی طالب] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے میرے لیے فرمایا کہ ایک بار دیکھنے کے بعد دوسری بار مت دیکھو پہلی نظر تجھے معاف ہے اور دوسری دفعہ دیکھنا جائز نہیں۔“ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں، تفسیر کشاف جلد 2، ابن کثیر جلد 3اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹہ رائج کیا گیا جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے۔ بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر، کمر، سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب سورۃ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) سے سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت ﴿وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمْرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ﴾کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی کی چادر بنائی اور دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد میں حاضر ہوئیں سب چادریں اوڑھے ہوئے تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک روایت میں حضرت عائشہ (رض) مزید تفصیل بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کی چادریں بنائی۔ ( ابن کثیر ج 3، ابو داؤد کتاب اللباس) مسائل: 1۔ مومن مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں جھکا کر رکھنی چاہئیں۔ 2۔ مومن مرد و عورت کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنی چاہے۔ 3۔ مومنہ عورتوں کے لیے لائق نہیں کہ وہ اپنی زیب وزیبائش کا اظہار غیر محرموں کے سامنے کریں۔ 4۔ سابقہ جرائم کی اللہ سے معافی مانگی چاہیے۔ 5۔ جرائم سے توبہ تائب ہونا اور نیکی کو اختیار کرنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال سے باخبر ہے۔