سورة النور - آیت 2

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : غیر شادی شدہ زانی عورت اور مرد کے لیے سو، سو کوڑوں کی سزا، شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا یک دم نازل نہیں ہوئی اس سے پہلے سورۃ النساء میں بدکار لوگوں کی سزا کا اشارہ ہوچکا ہے۔ ” تمہاری عورتوں میں جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ لاؤ۔ اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ ان کی موت واقع ہو یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راہ نکال دے تم میں سے جو دو مرد ایسا کام کریں انہیں سزا دو اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو انہیں چھوڑ دو بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی کی وجہ سے برائی کریں اور پھر جلد ہی اس سے توبہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا‘ حکمت والا ہے۔ (النساء : 15، 16، 17) اگر کوئی عورت یا مرد بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں کوڑے مارتے ہوئے نہ کمی بیشی کی جائے اور نہ ہی کوڑے مارنے میں نرمی ہونا چاہیے۔ یہ اللہ کے دین کا ضابطہ ہے۔ اس پر من وعن عمل ہونا چاہیے اگر واقعی تم اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے ہو زانی اور زانیہ کو کوڑے مارتے وقت مومنوں کی ایک جماعت کا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ سزا کا حکم جاری کرتے ہوئے پہلے بدکار عورت کا ذکر کیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عام طور پر مرد اس وقت تک عورت سے بدکاری نہیں کرسکتا جب تک عورت کسی نہ کسی طرح یہ فعل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔ بدکاری کا اعتراف کرنے یا چار شہادتیں قائم ہونے کے بعد انہیں سو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ بدکار مرد کو یہ سزا بھی دی جائے گی کہ اسے ایک سال کے لیے اس کے علاقہ سے جلا وطن کردیا جائے۔ کوڑے مارتے وقت کسی قسم کی شفقت اور نرمی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود میں سے ایک حد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حد کا دل و جان سے احترام اور اس پر پوری طرح عمل ہونا چاہیے۔ حد کے نفاذ کو یہ کہہ کر یقینی بنایا گیا ہے کہ اگر تمہارا اللہ اور آخرت پر یقین ہے تو تمہیں حد ضرور نافذ کرنا ہوگی۔ حد کے نفاذ میں اس شرط کو بھی لازم قرار دیا ہے کہ زانی اور زانیہ پر کوڑے برساتے وقت مومنوں کی ایک جماعت کا حاضر ہونا ضروری ہے تاکہ یہ سزا دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کریں۔ کوڑوں کی سزا غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ہوگی اگر زنا کرنے والے دونوں یا ان میں سے ایک شادی شدہ ہو تو اسے رجم کیا جائے گا۔ کیونکہ نبی معظم (ﷺ) اور خلفائے راشدین (رض) نے شادی شدہ زانی اور زانیہ کو رجم کیا تھا۔ صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ تورات، انجیل میں بھی شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے یہی سزا مقرر ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک یہودی مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا تھا ان کا مقدمہ آپ (ﷺ) کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مقدمہ پیش کرنے والے یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ شریعت موسوی میں اس کی سزا رجم ہے۔ ہوسکتا ہے شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا نرم ہو اس غرض سے زانی عورت اور مرد کو آپ (ﷺ) کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نے یہودی عالم ابن صوریا کو بلاکر رجم کے بارے میں استفسار فرمایا تو اس نے کہا کہ تورایت میں اس جرم کی سزا رجم ہے اس پر نبی (ﷺ) نے دونوں کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری : کتاب المحاربین، مسلم کتاب الحدود) تفتیش میں نرمی اور سزا میں سختی :۔ بعض علماء اور سکالر حضرات غیر مسلموں کے پراپیگنڈہ سے متأثر ہو کر یہ شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں بعض سزائیں حد سے زیادہ سخت ہیں کچھ زبان دراز غیر مسلموں کی نمائندگی کرتے ہوئے اسلامی حدود کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کس حد تک لوگوں کو حدود سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ سب سے پہلے اسلام کے تفتیشی نظام پر غور فرمائیں اس وقت تک کسی بدکار کو سنگسار کرنے اور کوڑے مانے کی اجازت نہیں۔ جب تک چار عاقل، بالغ اور عادل گواہ مکمل ثبوت کے ساتھ اپنی گواہی ثابت نہ کرسکیں۔ گواہی لیتے ہوئے جج پر لازم ہے کہ وہ پوری غیر جانبداری اور دیانتداری کے ساتھ کھلے الفاظ میں شہادت لے۔ تب جا کر مجرموں پر حدوداللہ کانفاذ ہوگا۔ اس سلسلہ میں نبی معظم (ﷺ) کا انداز تفتیش ملاحظہ فرمائیں کہ اس میں کس قدر نرمی اور احتیاط برتی گئی ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللَّہِ () ادْرَءُ وا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِینَ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنْ کَانَ لَہُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِیلَہُ فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ یُخْطِئَ فِی الْعَفْوِ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یُخْطِئَ فِی الْعُقُوبَۃِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی دَرْءِ الْحُدُودِ] ” سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس قدر تم کوشش کرسکتے ہو مسلمانوں کو حدود سے بچاؤ اگر ان کا بچ نکلنا ممکن ہو تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بے شک حکمران کا معاف کرنے میں غلطی کرنا سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔“ ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ ” فَاجْلِدُوْا“ میں ملتا ہے۔ جلد کا لفظ جِلّد ( یعنی کھال) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار۔ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جلد تک رہے گوشت تک نہ پہنچے۔ کوڑے اس طرح نہ مارے جائیں کہ جس سے جسم کی بوٹیاں اڑ جائیں یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑجائے۔ ایسی ضرب لگانا قرآن کے خلاف ہے۔ مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطا امام مالک (رح) کی روایت کے مطابق نبی (ﷺ) نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہوچکا تھا۔ آپ نے فرمایا اس سے سخت لاؤ پھر ایک اور کوڑا لایا گیا جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا ایسا کوڑا لاؤ جو استعمال ہوچکا ہو۔ اس سے آپ نے ضرب لگوائی اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان النہدی نے حضرت عمر (رض) کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ ( احکام القرآن جصاص، ج3) رجم شدہ عورت کے بارے میں آپ (ﷺ) کے خیالات اور اس کی نماز جنازہ کا حکم : (أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ الأَسْلَمِیَّ أَتَی رَسُول اللَّہِ () فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِی وَزَنَیْتُ وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ تُطَہِّرَنِی فَرَدَّہُ فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَاہُ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ فَرَدَّہُ الثَّانِیَۃَ فَأَرْسَلَ رَسُول اللَّہِ () إِلَی قَوْمِہِ فَقَالَ أَتَعْلَمُونَ بِعَقْلِہِ بَأْسًا تُنْکِرُونَ مِنْہُ شَیْءًا فَقَالُوا مَا نَعْلَمُہُ إِلاَّ وَفِیَّ الْعَقْلِ مِنْ صَالِحِینَا فیمَا نُرَی فَأَتَاہ الثَّالِثَۃَ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ أَیْضًا فَسَأَلَ عَنْہُ فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُ لاَ بَأْسَ بِہِ وَلاَ بِعَقْلِہِ فَلَمَّا کَان الرَّابِعَۃَ حَفَرَ لَہُ حُفْرَۃً ثُمَّ أَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ قَالَ فَجَاءَ تِ الْغَامِدِیَّۃُ فَقَالَتْ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ فَطَہِّرْنِی وَإِنَّہُ رَدَّہَا فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَتْ یَا رَسُول اللَّہِ لِمَ تَرُدُّنِی لَعَلَّکَ أَنْ تَرُدَّنِی کَمَا رَدَدْتَ مَاعِزًا فَوَاللَّہِ إِنِّی لَحُبْلَی قَالَ إِمَّا لاَ فَاذْہَبِی حَتَّی تَلِدِی فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْہُ بالصَّبِیِّ فِی خِرْقَۃٍ قَالَتْ ہَذَا قَدْ وَلَدْتُہُ قَالَ اذْہَبِی فَأَرْضِعِیہِ حَتَّی تَفْطِمِیہِ فَلَمَّا فَطَمَتْہُ أَتَتْہُ بالصَّبِیِّ فِی یَدِہِ کِسْرَۃُ خُبْزٍ فَقَالَتْ ہَذَا یَا نَبِیَّ اللَّہِ قَدْ فَطَمْتُہُ وَقَدْ أَکَلَ الطَّعَامَ فَدَفَعَ الصَّبِیَّ إِلَی رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَحُفِرَ لَہَا إِلَی صَدْرِہَا وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوہَا فَیُقْبِلُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِحَجَرٍ فَرَمَی رَأْسَہَا فَتَنَضَّحَ الدَّمُ عَلَی وَجْہِ خَالِدٍ فَسَبَّہَا فَسَمِعَ نَبِیُّ اللَّہِ () سَبَّہُ إِیَّاہَا فَقَالَ مَہْلاً یَا خَالِدُ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَہَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَصَلَّی عَلَیْہَا وَدُفِنَت) [ رواہ مسلم : باب مَنِ اعْتَرَفَ عَلَی نَفْسِہِ بالزِّنَا] حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ماعز بن مالک اسلمی (رض) نبی گرامی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ! مجھے پاک کیجیے۔ آپ نے فرمایا‘ تجھ پر اللہ رحم کرے واپس جاؤ! اللہ سے مغفرت طلب کرو! بریدہ (رض) کہتے ہیں‘ کہ وہ زیادہ دور نہیں گیا تھا واپس آیا اور نبی گرامی (ﷺ) سے وہی مطالبہ کیا جب چوتھی مرتبہ اس نے مطالبہ کیا تو آپ نے اس سے پوچھا‘ میں تجھے کس گناہ سے پاک کروں؟ اس نے کہا‘ زنا سے! نبی (ﷺ) نے پوچھا‘ کیا یہ دیوانہ ہے؟ بتایا گیا کہ دیوانہ نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا کیا اس نے شراب پی رکھی ہے؟ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا‘ اس نے اس کا منہ سونگھا‘ لیکن اس سے شراب کی بو نہیں آئی۔ آپ نے پوچھا کیا تو نے زنا کیا ہے؟ اس نے کہا‘ ہاں۔ آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا اور اسے رجم کردیا گیا۔ صحابہ کرام دو یا تین دن خاموش رہے‘ پھر رسول اللہ (ﷺ) تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا : ماعز بن مالک (رض) کے لیے مغفرت مانگو۔ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ایک جماعت پر تقسیم کیا جائے تو ان سب کو معاف کر دیاجائے۔ اس کے بعد آپ کے پاس غامدیہ قبیلہ کی عورت آئی۔ اس نے عرض کیا‘ اے اللہ کے رسول ! مجھے پاک کردیں۔ آپ نے فرمایا : تجھ پر اللہ کی رحمت ہو‘ چلی جا اور اللہ سے توبہ کر۔ اس نے عرض کی‘ آپ مجھے اسی طرح لوٹانا چاہتے ہیں جیسے آپ نے ماعزبن مالک کو واپس کیا تھا۔ میں تو زنا سے حاملہ ہوچکی ہوں۔ آپ نے فرمایا کیا واقعی تو حاملہ ہے تو اس نے عرض کی‘ جی ہاں! آپ نے اسے فرمایا وضع حمل کے بعد آنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ ایک انصاری نے اس کی کفالت کی جب اس نے بچہ جنم دیا تو انصاری نبی اکرم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا‘ یا رسول اللہ (ﷺ) ! اس غامدی عورت نے بچے کو جنم دیا ہے۔ فرمایا! کیا ہم اسے اس حالت میں رجم کریں گے کہ بچے کو دودھ پلانے والی کوئی نہ ہو؟ ایک انصاری کھڑا ہوا۔ اس نے کہا‘ اس کی رضاعت کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ تب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے اسے کہا کہ چلی جا یہاں تک تو بچے کو جنم دے۔ جب بچہ پیدا ہوا تو آپ نے فرمایا جا! اسے دودھ پلایہاں تک بچے کو دودھ پلانا چھوڑ دے۔ جب اس نے بچے کو دودھ پلانا چھوڑ دیا تو وہ بچے کو ساتھ لائی اس بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے اسے دودھ پلانا ختم کردیا ہے اب یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ (ﷺ) کے حکم سے اس کے لیے اس کی چھاتی تک گڑھا کھودا گیا۔ اور لوگوں کو رجم کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے اسے رجم کیا۔ خالد بن ولید (رض) ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا‘ جس سے خون کے چھینٹے خالد (رض) کے چہرے پر گرے۔ خالد (رض) نے اسے برا بھلا کہا۔ نبی مکرم نے فرمایا! اے خالد رک جاؤ! اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے اگر ٹیکس لینے والا ایسی توبہ کرے تو اسے بھی معاف کردیا جائے۔ پھر آپ کے حکم پر اس کی نماز ہ جنازہ پڑھی گئی اور اسے دفن کردیا گیا۔ حد نافذ کرنے میں کوئی رعایت نہیں : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) اَنَّ قُرَیْشًا أَھَمَّھُمْ شَانُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقَالُوْ ا مَنْ یُّکَلِّمُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ () فَقَالُوْ ا مَنْ یَّجْتَرِئُ عَلَیْہِ اِلَّااُسَامَۃُ ابْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ () فَکَلَّمَہٗ اُسَامَۃُ (رض) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ اِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَ اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَاَیْمُ اللّٰہِ لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ () سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا) [ رواہ مسلم : باب قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِیفِ وَغَیْرِہِ وَالنَّہْیِ عَنِ الشَّفَاعَۃِ فِی الْحُدُودِ] حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش مخزومی عورت کی حالت زار پر پریشان ہوئے جس نے چوری کی تھی۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ اس عورت کے بارے میں رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں کس سے سفارش کروائی جائے انہوں نے سوچا کہ اسامہ بن زید (رض) نبی معظم (ﷺ) کے پیارے ہیں‘ ان کے سوا یہ جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اسامہ نے آپ سے عرض کی۔ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت اسامہ (رض) سے فرمایا‘ کیا تو حدود اللہ میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے؟ آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا‘ کہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوگئے کہ ان میں کوئی بڑے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے۔ جب چھوٹے درجے کا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ اسلام سزاؤں کا دین نہیں اسلام نے جرم کے اسباب اور وجوہات کو پیش نظر رکھ کر سزائیں مقرر کی ہیں۔ غیر شادی کے لیے کوڑوں کی سزا اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ اس سے اس غلطی کا امکان ہوسکتا ہے اسی لیے صرف سو کوڑے سزا مقرر کی گئی ہے۔ لیکن اگر شادی شدہ عورت یامرد فعل بد کاری کا ارتکاب کرے تو اس کی یہ سزا ہے کہ اسے پتھر مار مار کر جان سے ما ردیا جائے کیونکہ فطری جذبات کے لیے اسے شادی کرنے کا حکم ہے۔ اگر ایک بیوی پر گزارا نہیں تو مرد کے لیے چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ جہاں تک شادی شدہ عورت کا معاملہ ہے اسے کسی طرح بھی ایک سے زیادہ خاوند کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے سنگین قسم کی خرابیاں جنم لیتی ہیں جن کا حل ممکن نہیں ہے اور پھر چند عورتیں ہی ایسی ہوتی ہیں جن کے جذبات اپنے سے باہر ہوجائیں کیونکہ جوں جوں عورت بچے جنم دیتی ہے اور اس کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے تو وہ فطری عمل سے کافی حد تک بے نیاز ہوجاتی ہے اگر کوئی عورت غیر معمولی جذبات رکھتی ہو یا مرد اپنے جذبات پر قابو پانے میں مشکل محسوس کرے تو اسے روزے رکھنے کا حکم ہے اگر سنت کے مطابق بھوک رکھ کر روزہ رکھا اور افطار کیا جائے تو جذبات خود بخود ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود شادی شدہ مرد یا عورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہیں تو انہیں اس لیے رجم کرنے کا حکم ہے کہ یہ نہ صرف معاشرے کے لیے ناسور ہیں بلکہ اپنی اولاد اور خاندان کے لیے بھی کلنگ کاٹیکہ ہے ایسے وجود کو عبرتناک سزا دے کر معاشرے کو پاک کرنا ضروری ہے تاکہ شرم وحیا کی حدود کا تحفظ ہو سکے۔ مسائل: 1۔ غیرشادی شدہ زانی عورت اور مرد کو سو، سو کوڑالگایاجائے۔ 2۔ کوڑے لگانے میں کمی بیشی اور نرمی نہیں ہونا چاہیے۔ 3۔ حد نافذ کرنا اللہ کا حکم ہے۔ 4۔ حد نافذ کرتے وقت مومنوں کی ایک جماعت کا موجود ہونا لازم ہے۔