قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ
فرمائے گا تم زمین میں سالوں کی گنتی میں کتنی مدت رہے؟
فہم القرآن: (آیت 112 سے 115) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کا جہنمیوں سے ایک اور سوال :۔ انسان کی بغاوت اور نافرمانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ سمجھتا ہے مرنے کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش نہیں ہونا۔ جہنمیوں کی حسرتوں میں اضافہ کرنے اور دنیا میں دی جانے والی مہلت کا احساس دلانے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے استفسار فرمائیں گے۔ بتاؤ کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ ٹھہرے تھے ؟ جہنمی جہنم کی ہولناکیوں سے گھبرا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے۔ اس کے ساتھ ہی فریاد کریں گے کہ الٰہی ہمیں کچھ یاد نہیں کہ ہم کتنی دیر ٹھہرے رہے۔ آپ ان لوگوں سے استفسار فرمائیں جو گنتی کو جاننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ تم ایک دن یا اس کا کچھ حصہ نہیں ٹھہرے بلکہ ایک مدت تک ٹھہرے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مدّت کو قلیل مدت قرار دیا ہے اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کی نعمتیں آخرت کے مقابلے میں قلیل ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جہنمیوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ تمہیں دنیا کی زندگی میں معمولی اختیارات اور تھوڑی سی مہلت دی گئی مگر تم نے پھر بھی اپنے رب کی نافرمانی کی۔ اگر تم دنیا کی زندگی کو قلیل اور عارضی جانتے اور آخرت کی حقیقت کو سمجھتے تو آج جہنم کے عذاب سے نجات پاتے۔ (عَنِ المُسْتَوْرِ دِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ: وَاللّٰہِ مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِ لَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ اَحَدُکُمْ إِصْبَعَہٗ فِی الْیَمِّ فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ) [ رواہ مسلم : باب فَنَاء الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ] ” حضرت مستورد بن شداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول مکرم (ﷺ) کو بیان کرتے ہوئے سنا اللہ کی قسم! دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں اتنی سی ہے‘ جتنا کہ تم میں سے کوئی دریا میں اپنی انگلی ڈالے۔ پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کتنا پانی آیا ہے؟“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ) [ رواہ البخاری : باب قول النبی (ﷺ) کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْل] حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے میرے کندھے کو پکڑکر فرمایا۔ دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخیوں میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا‘ جو دنیا میں سب سے زیادہ عیش وآرام کی زندگی بسر کرتا رہا۔ اسے دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا۔ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے کبھی آرام دیکھا؟ اور تجھ پر نعمتوں کا کوئی دور گزرا ؟ وہ کہے گا۔ اللہ کی قسم! کبھی نہیں‘ اے میرے رب ! میں نے کبھی آرام نہیں پایا۔ پھر جنتیوں میں سے ایسے شخص لا یا جائے گا‘ جس نے دنیا میں سب سے زیادہ تنگ زندگی گزاری ہوگی اسے جنت کی ایک جھلک دکھاکر پوچھا جائے گا‘ کیا تو نے کبھی تنگی دیکھی ؟ کیا تجھ پر کبھی سختی کا وقت آیا ؟ وہ جواب دے گا۔ اللہ کی قسم! مجھ پر کوئی تنگی نہیں آئی اور نہ ہی میں نے کبھی برا دن دیکھا۔“ [ رواہ مسلم : باب صَبْغِ أَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا فِی النَّارِ وَصَبْغِ أَشَدِّہِمْ بُؤْسًا فِی الْجَنَّۃ] مسائل: 1۔ جہنمی جہنم کے عذاب کی وجہ سے دنیا کی عیش وعشرت بھول جائیں گے۔ 2۔ جہنمی دنیا میں طویل مدت تک رہنے کے باوجود اسے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ قرر دیں گے۔ تفسیر بالقرآن: آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت : 1۔ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ:17) 2۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام :32) 3۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد :26) 4۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید :20) 5۔ دنیا عارضی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (المؤمن :39)