سورة المؤمنون - آیت 93

قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کہہ اے میرے رب! اگر تو کبھی مجھے ضرور ہی وہ (عذاب) دکھائے جس کا وہ وعدہ دیے جاتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 93 سے 96) ربط کلام : شرک کرنے کی وجہ سے پہلی اقوام پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ نبی اکرم (ﷺ) کو عذاب سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ منکرین حق نبی کریم (ﷺ) سے باربار عذاب کا مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے وہ اب تک کیوں نہیں آیا؟ کفار کے اس مطالبہ کے مختلف موقعوں پر مختلف جواب دیے گئے ہیں۔ یہاں نئے انداز میں اس کے تین جواب دیے گئے ہیں۔ اے پیغمبر (ﷺ) انہیں فرمائیں جس عذاب کی تم جلدی کررہے ہو میں تو اپنے رب سے اس کی پناہ مانگتاہوں۔ میری دعا ہے کہ الٰہی اگر میری موجود گی میں تیرا عذاب نازل ہو تو مجھے ظالموں میں شریک نہ کرنا۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ ہم کفار کے ساتھ کیے گئے وعدہ کو پورا کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کی آنکھوں کے سامنے ان کو تباہ وبرباد کردیں۔ آپ ان کی برائی کے مقابلے میں اچھا رویّہ اختیار کریں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے جو کچھ آپ کے بارے میں ہر زہ سرائی کرتے ہیں۔ ” اے نبی نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہو سکتے آپ برائی کا ایسے انداز میں جواب دیں جو اچھا ہو آپ دیکھیں گے کہ جس شخص کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ آپ کا گہرا دوست بن گیا۔ یہ حوصلہ اور ہمت صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ کسی بڑے نصیب والے کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ (حٰم السجدہ : 34، 35) ” حضرت علی (رض) سے روایت ہے ایک یہودی عالم کا رسول اللہ (ﷺ) کے ذمے کچھ دینار قرض تھا۔ اس نے نبی (ﷺ) سے اس کا مطالبہ کیا آپ نے اس سے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جس سے تیرا قرض ادا کروں۔ اس نے کہا اے محمد (ﷺ) میں یہاں سے نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ آپ مجھ کو میرا قرض ادا کردیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب تک تو میرے پاس بیٹھا رہے گا اس وقت تک میں بھی یہاں بیٹھا رہوں گا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھائی آپ کے صحابہ نے اسے ڈرانا اور دھمکانا چاہا تو آپ ان کی اس حرکت پر ناراض نہیں ہوئے۔ صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول یہودی آپ کو روکے ہوئے ہے رسول اللہ نے فرمایا میرے رب نے مجھے نرمی کرنے والا بنایا ہے اور کسی پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔ اگلے دن اس یہودی نے کلمہ پڑھ لیا اور کہا کہ میرا آدھا مال اللہ کے راستے میں وقف ہے۔ اللہ کی قسم میں نے آپ کے ساتھ یہ رویہّ آپ کو جانچنے کے لیے اختیار کیا۔ تاکہ میں ان اوصاف کو دیکھ سکوں جو اوصاف تورات میں محمد بن عبداللہ کے متعلق پائے جاتے ہیں اس کی جائے پیدائش مکہ ہوگی اور اس کی ہجرت مدینہ میں اور اس کی بادشاہت شام تک ہوگی نہ وہ سخت گو، نہ تند خو، نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا، نہ بے حیائی کرنے والا اور نہ بد کلامی کرنے ولاہو گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں میرے اس مال کے بارے میں اللہ کے حکم کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے یہودی مالدار آدمی تھا۔“ [ رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ ] مسائل: 1۔ ” اللہ“ کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرنے پر قادر ہے۔ 3۔ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کا ” اللہ“ کے عتاب اور عذاب سے ڈرنا : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم پر دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ( الاعراف :59) 2۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب ڈرتا ہوں۔ (یونس :15) 3۔ شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم پر ایسے عذاب سے ڈرتا ہوں جو تم سب کو گھیرلے گا۔ ( ہود :84) 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اللہ کے عذاب سے خوف کھایا کرتے تھے۔ ( مریم :45)