لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّكُم مِّنَّا لَا تُنصَرُونَ
آج مت بلبلاؤ، بے شک تم کو ہماری طرف سے مدد نہ دی جائے گی۔
فہم القرآن: (آیت 65 سے 67) ربط کلام : جہنم میں داخل کیے جانے والے مجرموں کے جرائم۔ جہنم میں داخل کیے جانے والے لوگ چلائیں اور چیخ وپکار کریں گے لیکن ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ کیونکہ دنیا میں جب ان لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے فرامین پڑھے جاتے تھے تو یہ تکبر کی وجہ سے الٹے منہ پھرجاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو داستان گوئی اور بے ہودگی کے انداز میں لیتے تھے ” سامراً“ کا معنٰی ہے کہ ” رات کے وقت سوتے ہوئے قصہ کہانیاں اور داستان گوئی کرنا“ گویا کہ منکرین حق اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور فرامین کو قصے کہانیوں سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔ تکبر اور یاواگوئی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے اعراض کرتے ہیں۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کی وجہ سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ 2۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو بے ہودہ اور داستان گوئی کے انداز میں لیتے ہیں۔