سورة المؤمنون - آیت 51

يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤاور نیک عمل کرو، یقیناً میں اسے جو تم کرتے ہو، خوب جاننے والا ہوں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 51 سے 52) ربط کلام : پچھلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ہارون (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا اور کچھ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا نام لیے بغیر ان کی امتوں کے کردار اور انجام کی طرف اشارات کیے گئے۔ ان سب کے لیے جو بنیادی احکام تھے ان کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ایک جماعت ہونے کی بناء پر ایک ہی تعلیم دی تھی جس کا خلاصہ تین احکام میں ذکر کیا ہے ۔1 حلال اور طیب کھاؤ۔2۔ نیک اعمال کرتے رہے۔3 ۔ سب کا ایک ہی رب ہے اسی سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ یہاں اعمال کی قبولیت کے لیے تین شرائط ذکر کی گئی ہیں۔ پاک اور حلال رزق کا اہتمام کیا جائے جو شخص حلال اور طیب روزی کا خیال رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ صالح اعمال کرنے کی توفیق بخشتا ہے۔ صالح اعمال اس وقت قبول ہوتے ہیں جب ایک رب پر ایمان لایا جائے اور اس سے ڈرتے ہوئے شرک و بدعت اور برے اعمال سے بچا جائے۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ﴿ یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا﴾ وَقَالَ﴿ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ﴾ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلٰی السَّمَاءِ یَارَبِّ وَمَطَعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ) [ رواہ مسلم : باب کسب الحلال والطیب وتربیتہا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔“ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے پراگندہ بال ہے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب! یارب! جب کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام‘ اس کالباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس صورت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔“ آپ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ حرام خور انسان دعا کی قبولیت کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے۔ مسائل: 1۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو حلال اور طیب روزی کھانے کا حکم تھا۔ 2۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو صالح اعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔ 3۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) ایک ہی جماعت اور ایک ہی دین کے داعی تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے اچھی واقف ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے : 1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ:41) 2۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مندو۔ (الطلاق :10) 3۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ:100) 4۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ (الاحزاب :70) 5۔ اے لوگو اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے۔ (النساء :1) 6۔ اے مومن بندو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ (الاحزاب :70) 7۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ (المائدۃ :57) 8۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات :10) 9۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران :102) 10۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے سامنے تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔ (المائدۃ:96)