أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُم مُّخْرَجُونَ
کیا یہ تمھیں وعدہ دیتا ہے کہ بے شک جب تم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں بن گئے تو تم یقیناً نکالے جانے والے ہو۔
فہم القرآن: (آیت 35 سے 38) ربط کلام : قیامت کو جھٹلانے والے لوگوں کی فرسودہ دلیل : قیامت کا انکار کرنے والے ہمیشہ سے یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ جب انسان کا جسم گل سڑ جائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے ؟ یہی بے ہودہ اور فرسودہ دلیل حضرت ھود علیہ السلامکی قوم اور اس کے سردار دیا کرتے تھے۔ لیڈر اپنی قوم کو پھسلانے اور ورغلانے کے لیے کہتے تھے کہ ھود (علیہ السلام) تمہیں مرنے کے بعد زندہ ہونے کا وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مرکھپ جاؤ گے اور تمہاری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی بن جائیں گی۔ اس کے باوجود ” اللہ“ تمہیں زندہ کرے گا۔ ھودکی یہ بات عقل کے خلاف اور بعید از قیاس ہے۔ دنیا میں مرنا جینا تو رہتا ہے لیکن ہم دوبارہ کبھی نہیں اٹھائے جائیں گے۔ یہ شخص قیامت کا نام لے کر اللہ تعالیٰ پرجھوٹ بولتا ہے۔ اس لیے ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انسان پر جب دنیا کی محبت غالب آجاتی ہے تو اس کا موت کے تصور سے ہی دل کانپتا ہے۔ اگر دل ایمان کی دولت سے خالی ہو تو کھلے بندوں قیامت کا انکار کرتا ہے۔ اس کا یہ خیال عقیدہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس بنا پر وہ کہتا ہے کہ ہزاروں سال گزر چکے آج تک قیامت نہیں آئی اور نہ کسی نے دوبارہ زندہ ہو کر آخرت کے بارے میں کچھ بتلایا ہے۔ اس باطل عقیدہ کی وجہ سے لوگ اس قدر دلیر ہوئے کہ انہوں نے حضرت ھود علیہ السلامکو جھوٹا قرار دیا اور یہی عقیدہ اہل مکہ کا تھا۔ جن کے لیے سورۃ یسٓ میں یہ دلیل دی گئی ہے۔ ” انسان ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہو جائینگی تو ان کو کون زندہ کرے گا؟۔ فرمائیں کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر چیز کو پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی۔ تم اس سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے۔ کیوں نہیں وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور ہر بات کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے کہ ہوجا تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ وہ پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیزکی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (یٰس : 78تا83) ﴿قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُ وْسَھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا﴾ [ بنی اسرائیل : 50۔51] ’ فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا۔ وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔“ مسائل: 1۔ دنیادار لیڈر اور مذہبی پیشوا ہمیشہ سے قیامت کا انکار کرتے آرہے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قیامت قائم ہونے کے ثبوت : 1۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج :1) 2۔ قیامت اچانک آجائے گی۔ ( یوسف :107) 3۔ قیامت پل بھر میں واقع ہوجائے گی۔ ( النحل :77) 4۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ( الکہف :21) 5۔ جس نے قیامت کو جھٹلایا ہم نے اس کے لیے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ( الفرقان :11) 6۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا :30)