سورة المؤمنون - آیت 33

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جنھوں نے کفر کیا اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہم نے انھیں دنیا کی زندگی میں خوشحال رکھا تھا، کہا یہ نہیں ہے مگر تمھارے جیسا ایک بشر، جو اس میں سے کھاتا ہے جس میں سے تم کھاتے ہو اور اس میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 33 سے 34) ربط کلام : حضرت ھود علیہ السلام کی قوم کا ردّ عمل : جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اور ان کے نمائندوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا یا اور ان پر الزامات لگائے یہی وطیرہ حضرت ھود علیہ السلام کی قوم کے لیڈروں نے ان کے ساتھ اختیار کیا۔ کیونکہ لیڈر حضرات دنیوی نفع ونقصان کے حوالے سے زیادہ شعور رکھتے ہیں اور وہی مفادات اٹھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں اس لیے دعوت توحید کی مخالفت میں دنیا پرست مذہبی پیشوا اور لیڈر مخالفت میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح قیادت سے لوگوں کو متنفر کرتے ہیں ان کی مخالفانہ تحریک کے پیچھے دو باتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ آخرت کا انکار اور دنیا کے وسائل پر اترانا۔ اسی وجہ سے وہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ایک انسان سے بڑھ کر کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی بناء پر حضرت ھود علیہ السلام کے بارے میں یہ بات کہی گئی کہ لوگو! اس شخص کے پیچھے نہ لگنا کیونکہ یہ تمہارے جیسا انسان ہے۔ جو تم کھاتے، پیتے ہو اس طرح ہی یہ کھانے پینے کا محتاج ہے۔ اگر تم اپنے جیسے انسان کے پیچھے لگ گئے تو بھاری نقصان پاؤگے۔ نقصان سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص جس دین میں تمہیں لانا چاہتا ہے اس پر عمل کرنے سے تمہاری ترقی رک جائے گی اور تم دنیا کے معاملات میں دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ جاؤ گے۔ گویا کہ قوم کو دنیا کی ترقی کا جھانسہ دے کر دین سے دور رکھا گیا اور یہی شروع سے دنیادار لیڈروں کا ہتھ کنڈا رہا ہے جہاں تک پیغمبر کے کھانے پینے کا تعلق اور انسان ہونے کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر انسان ہوتا ہے اور اسے بھی بحیثیت انسان وہی حاجات در پیش ہوتی ہیں جن کی ہر انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں تک دنیا پر اترانے کا معاملہ ہے۔ قرآن مجید میں جن قوموں کی تباہی کا ذکر ہوا ہے ان میں اکثر اقوام دنیوی ترقی کے لحاظ سے بہت آگے تھیں یہ ترقی ہی ان کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ ﴿وَ کَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَافَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ بَعْدِھِمْ اِلَّا قَلِیْلًا وَ کُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْن﴾ [ القصص :58] ” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اتر آیا کرتے تھے سودیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے آخر کار ہم ہی وارث ہیں۔“ ﴿وَکَاَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنْ قَرْیَتِکَ الَّتِیْ اَخْرَجَتْکَ اَہْلَکْنَاہُمْ فَلاَ نَاصِرَ لَہُمْ﴾ [ محمد :13] ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو آپ کی اس بستی سے بڑھ کر طاقتور تھیں، جن ( کے رہنے والوں) نے آپ کو نکال دیا ہے۔ ہم نے انہیں ہلاک کیا تو ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوا۔“ مسائل: 1۔ ہر پیغمبر کی مخالفت سب سے پہلے دنیادار لیڈر ہی کرتے ہیں۔ 2۔ سرمایہ دار طبقہ کی اکثریت دعوت حق کی مخالفت کیا کرتی ہے۔ 3۔ دنیادار لیڈر دنیا کی ترقی کے حوالے سے قوم کو دین سے گمراہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: انبیائے کرام (علیہ السلام) انسان اور بشرہی ہوا کرتے تھے : 1۔ رسول انسان ہوتے ہیں۔ (ابراہیم :11) 2۔ رسول اللہ (ﷺ) بشر اور عبد ہیں۔ (الکہف :110) 3۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم میں انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم :4) 4۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف :109) 5۔ اللہ نے آپ (ﷺ) سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل :43) 6۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم :11 )