ثُمَّ أَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ
پھر ان کے بعد ہم نے اور زمانے کے لوگ پیدا کیے۔
فہم القرآن: (آیت 31 سے 32) ربط کلام : قوم نوح کی بربادی کے بعد دوسری قوم کا تذکرہ اور کردار :۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کو غرقاب کرنے کے بعدبچنے والے لوگوں کو بڑی افزائش سے سرفراز فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک دفعہ پھر طوفان نوح کے علاقہ میں آبادی کی کثرت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان میں ایک رسول بھیجا جس نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا جس کی دعوت حضرت نوح (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ اس پیغمبر نے لوگوں کو باربار یہ بات سمجھائی کہ اے لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ایسا کرنے کے لیے تیار ہو؟ لیکن قوم نے اللہ تعالیٰ کو صرف ایک الٰہ ماننے سے انکار کیا۔ وقت کے پیغمبر نے انہیں بہت سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے باز آؤ اور صرف ایک اللہ کی کی عبادت کرو مگر قوم نے اپنے رسول کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پہلی آیت میں ” قَرْنَ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنٰی لیے گئے ہیں 1 سو سال کا عرصہ 2 ایک نسل 3 کسی قوم کا ایک پورا دور۔ یہاں رسول کا نام نہیں بتلایا گیا لیکن مفسرین کا اندازہ ہے کہ اس سے مراد حضرت ھود علیہ السلامہیں۔ عقیدۂ توحید اور عبادت کی اہمیّت : (عَنْ مُعَاذٍ قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ (ﷺ) عَلَی حِمَارٍ یُقَالُ لَہُ عُفَیْرٌ، فَقَالَ یَا مُعَاذُ، ہَلْ تَدْرِی حَقَّ اللّٰہِ عَلَی عِبَادِہِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ قُلْتُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَ مَنْ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ، أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ لاَ تُبَشِّرْہُمْ فَیَتَّکِلُوا) [ رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ] ” حضرت معاذ فرماتے ہیں میں رسول محترم (ﷺ) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی لکڑی تھی۔ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّہِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَّہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ إِنَّ ذٰلِکَ لَعَظِیْمٌ، قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ تَخَافُ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قَوْلُہُ تَعَالَی ﴿فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَّأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (ﷺ) سے سوال کیا کہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے آپ نے فرمایا تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد کونسا ہے آپ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ کی بیوی سے بدکاری کرے۔“ مسائل: 1۔ حضرت ھود علیہ السلامنے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کرنے کی تلقین کی۔ 2۔ قوم ھودنے اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کرنے سے انکار کردیا۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا : 1۔ آپ (ﷺ) کو حکم کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس :104) 2۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد :36) 3۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود :2) 4۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ:21) 5۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف :40) 6۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء :36) 7۔ حضرت نوح، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : 25۔ 50۔ 61۔84) 8۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (بنی اسرائیل :23)