وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ
اور تو کہہ اے میرے رب! مجھے اتار، ایسا اتارنا جو بابرکت ہو اور تو سب اتارنے والوں سے بہتر ہے۔
فہم القرآن: (آیت 29 سے 30) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق سلسلہ کلام جاری ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی پر بیٹھنے اور اس سے اترنے کی دعا سکھلائی گئی چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی پر بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ مسلسل دعا کرتے رہے ” اے میرے رب مجھے بابرکت انداز میں زمین پر اتارنا تو ہی بہتر انداز میں اتارنے والاہے“ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نصیحت کے اسباق ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم لوگوں کو آزماتے ہیں۔ ایمانداروں کو اللہ تعالیٰ عام طور پر مشکلات اور مصائب کے ذریعے آزماتا ہے اور ظالموں کو وسائل اور مہلت دے کر آزماتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو زمین پر اترنے کے لیے جو دعا سکھلائی گئی اس میں ﴿مُنزَلاً مُّبَارَکاً﴾ کے الفاظ آئے ہیں جن سے مراد خیروعافیت کیساتھ اترنا اور کسی کی بہتر انداز میں مہمان نوازی کرنا ہے۔ مؤرخین اور مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سیلاب چالیس دن تک رہا جس کی کیفیت یہ تھی کہ پانی سب سے بلند پہاڑ کی چوٹی سے بھی بیس فٹ اونچا بہتا رہا۔ علاقہ میں کوئی چیز زندہ نہ بچی گویا کہ زمین کو اچھی طرح شرک و کفر کی غلاظت سے دھودیا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایا کہ : اے زمین پانی کو جذب کرلے اور آسمان کو حکم ہوا کہ تھم جاؤ اس طرح ظالم قوم کا صفایا ہوا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ کی چوٹی پر لنگر انداز ہوئی۔ جودی پہاڑ کردستان کے علاقہ میں جزیرۂ ابن عمر کے شمال مشرقی جانب واقع ہے۔ بائبل میں اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ ارا ط بتائی گئی ہے جو آرمینیا کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو ایک سلسلہ کوہستان کا نام بھی ہے۔ سلسلہ کوہستان کے معنی میں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھہرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابل کے ایک مذہبی پیشوا بریاسس (Berasus) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھہرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus) بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔ یہ طوفان، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا (پیدائش7: 18۔24) مگر قرآن میں یہ بات نہیں کہی گئی۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں۔ جو طوفان نوح سے بچا لیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دوچیزوں سے ہوتی ہے ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جا سکے۔ دوسری یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں۔ حتی کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیو گنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباء واجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ پھیل گئیں۔ (تفہیم القرآن، ج :2) واللہ اعلم ! مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی پر بیٹھنے اور اترنے کی دعا سکھلائی گئی۔ 2۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات میں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت کے اسباق ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نیک اور برے لوگوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے آزمانے کے مختلف طریقے : 1۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت :2) 2۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت :3) 3۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 4۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 5۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ:155) 6۔ اللہ نے موت وحیات کو انسان کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ (الملک :2) 7۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام :166) 8۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن :15)