وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ
اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقیناً ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 18 سے 20) ربط کلام : آسمانوں کی تخلیق کے بعد بارش کا تذکرہ اور اس کے فوائد :۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے اپنے اندازے کے مطابق بارش نازل کرتا ہے اور پھر پانی کو زمین میں ذخیرہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو اس بات پر قادر ہے کہ پانی کو خشک کردے۔ یا اسے زمین میں اتنا نیچے لے جائے کہ اسے حاصل کرنا انسان کے بس سے باہر ہو۔ پانی کے ساتھ باغات اور نباتات پیدا ہوتے ہیں جن کے پھل لوگ کھاتے ہیں۔ اسی نے طور سیناء کے علاقے میں زیتون کا درخت پیدا کیا جس سے تیل نکلتا ہے جسے لوگ سالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں زمین میں پانی ذخیرہ کرنے کے بارے میں سائنسدانوں کی دو آراء ہیں۔ 1۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بنایا تو اس وقت ہی پانی زمین میں ذخیرہ کردیا گیا۔ سائنسدانوں کے اندازہ کے مطابق دنیا میں تین حصہ پانی ہے اور ایک حصہ خشکی ہے، جس میں پہاڑ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے اسی پانی کے ذخیرہ سے ہی سمندر، دریا اور چشمے بہہ رہے ہیں۔ یہی پانی سورج کی تپش سے بخارات بن کر آسمان کی طرف اٹھتا ہے اور ایک مقام پر پہنچ کر برف کی شکل میں پہاڑوں پر جمتا رہتا ہے۔ اسی پانی کو بخارات کی شکل میں ہوا اٹھا کر مختلف علاقوں میں بارش کی صورت میں برساتی ہے، اور پھر سورج کی گرمی سے پگھل کر آبشاروں کی شکل میں نیچے آتا ہے جس سے دریا بہتے ہیں۔ 2۔ پانی نازل کرنے کا یہ بھی معنٰی لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بادلوں سے یک دم پانی برسانے کی بجائے قطرات کی شکل میں نیچے برساتا ہے تاکہ اس پانی سے باغات کے پھل، زمین میں اگنے والی انگوری اور نازک نباتات نقصان سے محفوظ رہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو زمین میں پانی کو اس قدر گہرا کردے کہ اسے حاصل کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہوجائے۔ جس کی مثالیں پوری دنیا کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان علاقوں میں نیچے سے پانی حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں مختلف ذرائع کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں پانی بھی اس کی عظیم قدرت کا مظہر ہے۔ پانی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ لوگو ! کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر اللہ تمہارے پانی کو نیچے سے نیچے لے جائے تو کون ہے تم میں سے جو اس پانی کو حاصل کرسکے (سورۃ الملک :30) کھجور اور انگور کے ساتھ ایک ایسے درخت کا ذکر فرمایا ہے جو طور سیناء کی وادی میں پایا جاتا ہے۔ نباتات کے ماہرین نے اس سے مراد زیتون کا درخت لیا ہے اور زیتون کا تاریخی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا اصلی وطن طورسیناء کا علاقہ ہے یہ درخت اس قدر طویل العمر ہوتا ہے۔ دوسے تین ہزار سال تک اپنی ہریالی قائم رکھتا ہے اس میں بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جن کا تیل مکھن کی طرح سفید، گاڑھا اور لذیذ ہوتا ہے جسے لوگ سالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ زیتون، کھجور اور انگور کے بارے میں معلومات جاننے کے لیے (فہم القرآن، جلد نمبر 2صفحہ360) ملاحظہ فرمائیں! مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنے اندازے کے مطابق پانی برسا تا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات، حیوانات اور انسانوں کی ضرورت کے لیے پانی ذخیرہ کر رکھا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ پانی کو زمین میں گہرا کرنے پر قادر ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہی کھجور، انگور اور زیتون پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں نباتات کا تذکرہ : 1۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل :11) 2۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون :19) 3۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس :34) 4۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام :99) 5۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام :141)