وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھارے اوپر سات راستے بنائے اور ہم کبھی مخلوق سے غافل نہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : انسان کو دوبارہ زندہ ہونے پر اس لیے بھی یقین کرنا چاہیے کہ جس خالق نے اوپر، نیچے سات آسمان بنائے اور انہیں بغیر سہارے کے کھڑا کر رکھا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیونکر مشکل ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرما کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس سے غافل نہیں ہیں اس فرمان میں آسمانوں کی بجائے ” طرائق“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے بارے میں اہل علم نے تین آراء کا اظہار فرمایا ہے۔1 ” سبع طرائق“ کا معنٰی ہے اوپر نیچے سات آسمان 2” سبع طرائق“ سے مراد سات قرأتیں ہیں۔3” سبع طرائق“ سے مراد آسمان کے وہ دروازے ہیں جن کے ذریعے ملائکہ زمین پر آتے ہیں اور پھر آسمان پر چڑھتے ہیں۔ بہرحال ان سے مراد آسمان ہوں یا کوئی دوسری چیز اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ناصرف اپنی مخلوق سے پوری طرح باخبر ہے بلکہ وہ اپنی مخلوقات کی ہر قسم کی ضروریات کو جانتا ہے اور کماحقہ ان کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ بعض مفسرین نے غافلین کا معنٰی کیا ہے کہ اس نے آسمانوں اور کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر، نیچے سات آسمان پیدا فرمائے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اس کی ضروریات کو جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ تفسیر بالقرآن: زمین و آسمان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی مدّت : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ :117) 2۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ:29) 3۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ:29) 4۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ :22) 5۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف :54)