سورة المؤمنون - آیت 9

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہی جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 9 سے 11) ربط کلام : مومنوں کی ساتویں صفت اور ان اوصاف کے حامل حضرات کا آخرت میں صلہ :۔ یہاں مومنوں کی بیان ہونے والی صفات میں ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ نماز کی حفاظت سے مراد پنجگانہ نماز کو اول وقت پر ادا کرنا اور نماز کے متعلقہ مسائل: کا خیال رکھنا ہے اس میں طہارت سے لے کر نماز سے سلام پھیرنے تک کے مسائل: شامل ہیں جن کا خلاصہ یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے ان پر عمل کیا اور مذکورہ اوصاف کے ساتھ متصف ہونے کی کوشش کی ان کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ جنت الفردوس کے مالک اور وارث ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یاد رہے کہ جنت کی سو منزلیں ہیں سب سے اعلیٰ اور آخری منزل جنت الفردوس ہے جس میں تمام جنّتوں سے بڑھ کر گل وگلزار اور انعام و اکرام ہوں گے۔ سروردو عالم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ لوگو! جب اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس مانگا کرو۔ (عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ (رض) أَنَّ أُمَّ الرُّبَیِّعِ بِنْتَ الْبَرَاءِ وَہْیَ أُمُّ حَارِثَۃَ بْنِ سُرَاقَۃَ أَتَتِ النَّبِیَّ () فَقَالَتْ یَا نَبِیَّ اللَّہِ، أَلاَ تُحَدِّثُنِی عَنْ حَارِثَۃَ وَکَانَ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَہُ سَہْمٌ غَرْبٌ، فَإِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ، صَبَرْتُ، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ ذَلِکَ اجْتَہَدْتُ عَلَیْہِ فِی الْبُکَاءِ قَالَ یَا أُمَّ حَارِثَۃَ، إِنَّہَا جِنَانٌ فِی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ ابْنَکِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الأَعْلَی) [رواہ البخاری : باب مَنْ أَتَاہُ سَہْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَہُ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے ام ربیع بنت براء (رض) جو حارثہ بن سراقہ کی والدہ ہیں وہ نبی (ﷺ) کے پاس آئی اس نے کہا اے اللہ کے نبی (ﷺ) آپ مجھے حارثہ کے بارے میں کیوں نہیں بتلاتے جو جنگ بدر میں شہید ہوگیا۔ اسے نامعلوم شخض کا تیر لگا۔ وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں اگر جہنم میں ہے تو میں بہت زیادہ رونے کی کوشش کروں گی، آپ (ﷺ) نے فرمایا اے امِّ حارثہ ! جنت کے بہت سے مراتب ہیں تیرا بیٹا فردوس الاعلیٰ میں پہنچ چکا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مائَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے۔ اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی پیدائش کے علاقہ میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ مسائل: 1۔ مومن ہر حوالے سے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ 2۔ مومنوں کو جنت کا مالک اور وارث ٹھہرایا جائے گا۔ 3۔ مومن جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن: جنت اور جنت الفردوس کی ایک جھلک : 1۔ نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت الفردوس میں ہوں گے۔ (المومنوں : 10۔11) 2۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس میں مہمانی کا اہتمام ہوگا۔ (الکھف :107) 3۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلام کیا جائے گا۔ (الفرقان :75) 4۔ جنت میں جنتی کو وہ کچھ حاصل ہوگا جس کا وہ خواہشمند ہوگا۔ ( الانبیاء :102)