إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 6 سے 7) ربط کلام : اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا لازم ہے مگر جائز طریقہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن مرد اور عورت اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس حکم سے ایک غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی جس کے تدارک کے لیے یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اپنی بیویوں سے فطری عمل کرنا جائز ہے اگر کسی کے پاس آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے وسائل نہ ہوں تو اسے اپنی لونڈی کے ساتھ فطری عمل کرنے کی اجازت ہے۔ بیوی اور لونڈی کے ساتھ فطری عمل کرنے پر کوئی ملامت نہیں۔ جس نے اس کے بغیر کوئی طریقہ یا راستہ اختیار کیا وہ حد سے گزرنے والوں سے ہوگا۔ اسلام دین فطرت ہے اس نے فطرت کا خیال رکھتے ہوئے ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی شخص بلاشرعی عذر غیر ازواجی زندگی بسر کرے۔ سرور دو عالم (ﷺ) نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے کہ نکاح کرنا میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں (رواہ ابن ماجہ : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ النِّکَاحِ) جو مرد اور عورت اس فرمان کے باوجود راہب یا تارک الدنیا ہوجاتے ہیں ان کا اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ جہاں تک لونڈی اور غلامی کا تعلق ہے اس بارے میں غیر مسلم لوگ نہایت ہی الزامی گفتگو اور منفی پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں جو شخص آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرسکتا ہے لونڈی سے نکاح کے لیے اس کا حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ اس لونڈی کا بھی فرض ہے کہ وہ محض شہوت رانی کے بجائے مستقل نکاح کی نیت رکھتے ہوئے پاک دامنی کے ارادے سے ازدواجی بندھن میں آئے اور کسی دوسرے مرد سے پوشیدہ دوستی رکھنے سے مکمل اجتناب کرے۔ (عن أَبی بُرْدَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (ﷺ) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی سے نبی مکرم (ﷺ) کا فرمان سنا۔ سرکار دوعالم (ﷺ) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت کیا جائے گا۔ ان میں ایک وہ ہے جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا پھر اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (ﷺ) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ غلامی کو جزوی طور پر کیوں برقرار رکھا گیا۔ تفصیل جاننے کے لیے پانچویں پارے کی پہلی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل: 1۔ اپنی بیوی سے جائز طریقے کے ساتھ مباشرت کرنا فطرت اور سنت ہے۔ 2۔ لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ تفسیر بالقرآن: لونڈیوں اور غلاموں کے حقوق : 1۔ صدقات مفلسوں، محتاجوں، عاملین، تالیف قلب، غلاموں کی آزادی، قرض داروں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ (التوبۃ:60) 2۔ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ تم چار بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے توایک بیوی یا ایک لونڈی ہی کافی ہے۔ ( النساء :4) 3۔ تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہتے ہیں تو ان سے مکاتبت کرو۔ (النور :33) 4۔ اے ایمان والو! تمہارے غلام بھی تم سے اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوں۔ ( النور :58) 5۔ تم میں سے جو پاک دامن آزاد مؤمن عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لونڈی سے نکاح کرلے۔ (النساء :25)