سورة البقرة - آیت 262

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر انھوں نے جو خرچ کیا اس کے پیچھے نہ کسی طرح کا احسان جتلانا لگاتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف پہنچانا، ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 262 سے 263) ربط کلام : انفاق فی سبیل اللہ سے ثواب میں اضافہ تب ہی ہوگا جب احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ پاک ہوگا۔ احسان جتلانے اور تکلیف سے بہتر ہے کہ آدمی دوسرے سے معذرت ہی کرلے۔ صدقہ کا بھاری اور بے انتہا اجر انہیں موصول ہوگا۔ جنہوں نے حالت ایمان میں انفاق فی سبیل اللہ کی شرائط پوری کرتے ہوئے اپنے صدقہ کو ایذاء اور احسان سے محفوظ رکھا ہو۔ ضروری نہیں کہ احسان اور تکلیف زبان سے ہی دی جائے۔ بسا اوقات صدقہ کرنے والا اپنے ملازم سے اس لیے زیادہ کام لیتا ہے کہ تنخواہ کے علاوہ بھی اسے کچھ دیتا ہے۔ اپنا اعزہ و اقرباء پر خرچ کرنے والے اکثر لوگ ان سے خدمت اور غیر معمولی احترام کی توقع کرتے ہیں۔ اسی طرح مسجد، مدرسہ اور کسی رفاہی ادارے پر خرچ کرنے کے بعد ریا کار اور کم ظرف لوگ ایسے اداروں کے خدمت گاروں اور علماء کو ملازم اور اپنا احسان مند رکھنے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس سے ملازم، رشتہ دار اور دین کی خدمت کرنے والوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور بسا اوقات اس قسم کے مخیر اور شہرت کے خواہش مند لوگ حکومت کے اداروں میں خرچ کرنے کے بعد سرکاری افسران سے مفادات اٹھاتے ہیں۔ جس سے صدقہ کرنے والے کے ثواب میں کمی اور صدقہ ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جس نے اپنے صدقے کو ان کمزوریوں سے بچا لیا اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بے انتہا اجر ہے اور اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ ایسا صدقہ جو اخلاقی بیماریوں سے محفوظ ہو۔ وہ دنیا میں بھی آدمی کو بے شمار نقصانات اور آزمائشوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے نیک نامی‘ دل میں سکون اور باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں صدقہ کرنے والے کو عاجزی اختیار کرنے اور گفتگو کا طریقہ بتلایا گیا ہے بالخصوص اس وقت جب آدمی کے پاس سائل کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو توسائل کو ڈانٹنے کے بجائے اچھے طریقے سے ٹالنا اور معذرت کرنا چاہیے۔ یہ انداز اس صدقے سے کہیں بہتر ہے جس صدقہ کے بعد مستحق کو احسان جتلا کر یا کسی اور طریقے سے اذیت پہنچائی جائے۔ صدقہ دینے والے کو ایسا اس لیے بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے اس کو اس قابل بنایا کہ اس کے سامنے دوسرے لوگ محتاج بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ صاحب ثروت کو ہر دم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ دینے والی اللہ کی ذات ہے۔ وہ آدمی کی کمزوریوں سے صرف نظر فرما کر اپنی عطاؤں سے نوازتا ہے۔ لہٰذا آدمی کو بھی برد باری اور سخاوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ البتہ جو شخص صحت مند اور حقیقتاً محتاج نہ ہو اسے دینے کے بجائے سمجھانا چاہیے۔ اگر وہ پھر بھی مانگنے سے باز نہ آئے تو اسے ڈانٹنے کی گنجائش ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) نے ایسے مانگت سے مانگا ہوا اس کی ضرورت سے زائد مال چھین کر آئندہ گداگری سے منع کردیا۔ [ سیرت فاروق] (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُِّ () مَایَزَال الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ فِیْ وَجْھِہٖ مُزْعَۃُ لَحْمٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب من سأل الناس تکثرا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ () ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ (رض) خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا 3 جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔“ مسائل : 1۔ احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے بچنے والا دنیا و آخرت میں بے خوف و خطر ہوگا۔ 2۔ معذرت کرنا تکلیف دینے اور احسان جتلانے سے بہتر ہے۔