الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔
تفسیر بالقرآن: ربط کلام : کامیاب ہونے والوں کی پہلی صفت۔ سورۃ الحج کے آخر میں نماز قائم کرنے کا حکم تھا اب نماز کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز کی ادائیگی میں اس کے ظاہری ارکان کا خیال رکھنا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ آدمی اپنے رب کے حضور کھڑا ہو تو اس کاسراپا گواہی دے رہا ہو کہ وہ اپنے رب کے دربار اور اس کی بارگاہ میں ایک فقیر، بے نوا اور سب سے بڑھ کر ایک درماندہ انسان کھڑا ہے۔ رکوع میں جائے تو اس سوچ اور انداز میں جھکے کہ اس نے ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور سرنگوں کرلیا ہے اب وہ جان بوجھ کر سرکشی نہیں کرے گا۔ سجدہ کرے تو اس نیت کے ساتھ کہ وہ ساری دنیا کے آستانوں کو چھوڑ کر اس آستانے پر گرا پڑا ہے جہاں سے کوئی سوالی نامراد نہیں لوٹتا۔ پیشانی زمین پر رکھ کر ایک طرف دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اپنی بے بسی اور درماندگی کا اظہار کرے اور دوسری طرف اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کرے۔ اسی کا نام خشوع ہے اس کے حصول کے لیے نبی اکرم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کی جائے جس طرح عبادت کرنے والا خود اپنے رب کو دیکھ رہا ہے یا پھر اس کا یہ تصور ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” اپنے ” اللہ“ کی عبادت اس یقین کے ساتھ کرو گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ تصور پیدا نہیں ہوسکتا تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أُمِرْنَا أَنْ نَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ وَلاَ نَکُفَّ ثَوْبًا وَلاَ شَعَرًا) [ رواہ البخاری : باب لَا نَکُفَّ ثَوْبًا وَلاَ شَعَرًا ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے ہمیں سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہم کپڑے اور بالوں کو نماز میں نہ سنواکریں۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْہَدُوا أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللَّہِ، وَیُقِیمُوا الصَّلاَۃَ، وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللَّہِ) [ رواہ البخاری : باب ﴿فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیلَہُمْ﴾] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مجھے لوگوں کے ساتھ لڑائی کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں جنہوں نے یہ کام کیے تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کرلیے سوائے اسلام کے حقوق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔“ (عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (ﷺ) فَقَالَ عِظْنِی وَأَوْجِزْفَقَالَ إِذَا قُمْتَ فِی صَلاَتِکَ فَصَلِّ صَلاَۃَ مُوَدِّعٍ وَلاَ تَکَلَّمْ بِکَلاَمٍ تَعْتَذِرُ مِنْہُ غَداً وَاجْمَعِ الإِیَاسَ مِمَّا فِی یَدَیِ النَّاسِ) [ رواہ احمد : مسند ابو ایوب انصاری] ” حضرت ابو ایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (ﷺ) کے پاس آیا اور آ کر عرض کی کہ مجھے نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو اس طرح نماز ادا کرو گویا کہ الوداعی نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی ایسی گفتگو نہ کرو۔ جس کے لیے کل کو کوئی عذر پیش کرنا پڑے اور جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس کی امید نہ کرو۔“ مسائل: 1۔ مومن اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ 2۔ خشوع وخضوع کے بغیر نماز ادا کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن: نماز کے دوران جن باتوں کا خیال رکھنا چاہے : 1۔ نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ( الروم :31) 2۔ نماز مقررہ اوقات پر ادا کی جائے۔ (النساء :103) 3۔ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے۔ ( النساء :43) 4۔ نماز میں غفلت اور ریا کاری نہیں ہونی چاہیے۔ ( الماعون : 5، 6) 5۔ پہلے وضو کیا جائے۔ (المائدۃ:6) 6۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ ( البقرۃ:43) 7۔ نماز میں عاجزی ہونی چاہیے۔ ( البقرۃ:238) 8۔ نماز خشوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ ( المؤمنون :2) 9۔ اقامت صلوٰۃ کا اجر۔ (العنکبوت :45)