قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ
یقیناً کامیاب ہوگئے مومن۔
فہم القرآن: ربط سورۃ: سورۃ حج کا اختتام اس بات پر ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ﴿ حَقَّ جِہَادِہٖ﴾ کے اصول پر جہاد کرنا، لوگوں پر شہادتِ حق قائم کرنا، نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی اور ہر حال میں دین کے ساتھ وابستہ رہنے والے کا دنیا میں صلہ یہ ہے کہ ایسے مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے اور وہی بہترین مدد کرنے والا ہے۔ ظاہر ہے جن کی اللہ تعالیٰ مدد کرے وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ سورۃ المومنون مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار اور مشرکین مسلمانوں کے بارے میں یہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ یہ لوگ حالات کی کسمپرسی کی وجہ سے بہت جلد ختم ہوجائیں گے۔ کیونکہ کفار اور مشرکین نے ہر طرف سے مسلمانوں کا گھیرا تنگ کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ جو مسلمان ہجرت کرکے حبشہ گئے ان میں کافی لوگ اس خوشی فہمی کی بنیاد پر مکہ واپس آئے کہ قریش مسلمان ہوچکے ہیں۔ لیکن مکہ پہنچ کر صورت حال کا علم ہوا کہ حالات پہلے سے زیادہ بگڑ گئے ہیں۔ واپس آنے والے احباب کی خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنیاد یہ واقعہ بنا کہ ایک دن سرور دو عالم (ﷺ) نے حرم میں مسلمانوں اور کفار کے سامنے سورۃ نجم کی تلاوت کی جب سجدہ کی آیت آئی تو آپ اور مسلمانوں نے سجدہ تلاوت کیا مجمع میں کچھ کافر موجود تھے وہ بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ خبر حبشہ پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں۔ مہاجرین حبشہ نے حالات بہتر سمجھ کر مکہ کی راہ لی مگر یہاں پہنچے تو حالات پہلے سے زیادہ دگرگوں تھے۔ ان حالات میں ایک طرف حبشہ سے واپس آنے والوں کی پریشانی میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اور دوسری طرف کفار نے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ مسلمان ہمارے رحم و کرم پر ہیں انہیں کوئی بھی پناہ دینے پر تیار نہیں ہے۔ غالب امکان ہے کہ ان حالات میں سورۃ المومنون نازل ہوئی۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دو ٹوک انداز میں کامیابی کی نوید دی۔ بظاہر یہ خوشخبری مستقبل کے حوالے سے ہے لیکن خطاب میں ” قَدْ“ اور ” اَفْلَحَ“ کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں۔ ” قَدْ“ کا مطلب ہے ” یقیناً“ اور ” اَفْلَحَ“ ماضی کا صیغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں یقین کرو کامیابی تمہارا مقدر ہوچکی ہے۔ کامیابی سے مراد آخرت کی سرخروئی اور دنیا میں اسلام دشمنوں کے خلاف کامیاب ہونا ہے چنانچہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کامیابی کا یہ پیغام حرف بحرف پورا ہوا۔ مسلمان دنیا کے وسائل کے لحاظ سے خوشحال ہوئے اور صدیوں تک برسر اقتدار رہے۔ آخرت کے حوالے سے انہیں یہ اعزاز بخشا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا۔ اور وہ اپنے رب پر راضی ہوگئے یہ ایسی فلاح اور کامیابی ہے جو قیامت تک کسی جماعت کو حاصل نہ ہو پائے گی۔ مسائل: 1۔ صحابہ کرام (رض) دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوئے۔