يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیکی کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
فہم القرآن: ربط کلام : مشرک اور کافر انکار کرتے ہیں تو کریں مومنوں تمہیں تو ہر صورت اپنے رب کے سامنے جھکنا اور اس کی غلامی میں زندگی بسر کرنا ہے۔ جب ہر چیز کا انجام اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کردیں۔ اس آیت کریمہ میں انسان کی زندگی کا مقصد نہایت مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور رکوع و سجود اور اس کی بندگی کرے اور جس کام کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے خیر قرار دیا ہے اسے بجالانے کی اخلاص کے ساتھ کوشش کرتا رہے۔ یہی دنیا و آخرت میں فلاح کا راستہ ہے۔ اسی بندگی کا جامع تصور یوں بھی بیان کیا ہے۔ ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ [ الانعام : 162تا163] ” فرما دیجیے! یقیناً میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہونے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ اس تصور عبادت سے ہٹنا مقصد حیات کی نفی اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کا آدمی کو کسی حال میں بھی حق نہیں پہنچتا۔ ایمان، کفر اور نفاق کی بڑی بڑی نشانیاں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز تمام طبقات انسانی کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے اپنی عبادت کے استحقاق کی یہ دلیل دی ہے کہ اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں، تمہارے آباؤ اجداد اور سب لوگوں کو پیدا فرمایا۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو سائبان، پھر آسمان سے پانی نازل کیا جس سے تمہارے رزق کا بندوبست فرمایا یہ سب کچھ ایک رب نے پیدا کیا لہٰذا اپنے ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (البقرۃ : 21۔22) یہ ہیں وہ حقائق جن کو تم بھی جانتے ہو کہ تخلیقِ کائنات اور ان امور میں اللہ تعالیٰ کا دوسرا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے پھر ایسے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانے کی کس طرح جرأت کرتے ہو ؟ جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں لہٰذا تمہیں صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے۔ توحید ربوبیت اور خالقیت کا شعور دلا کر انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ تاکہ انسان سمجھے کہ کسی غیر کی نہیں بلکہ میں اپنے خالق، رازق اور مالک کی ہی عبادت کر رہا ہوں۔ رکوع وسجود کے آداب : ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا سنو مجھے رکوع اور سجود میں تلاوت قرآن مجید سے منع کیا گیا ہے لہٰذا تم رکوع میں رب کی عظمت اور سجدے میں کثرت سے تسبیحات پڑھا کرو۔ امید ہے تمہاری مناجات قبول کی جائیں گی۔“ [ رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنْ قِرَاءَ ۃِ الْقُرْآنِ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ بندہ سجدہ میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا سجدہ میں کثرت کے ساتھ دعا کیا کرو۔“ [ رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ] مسائل: 1۔ رکوع سجود کرنے سے مراد نماز کی مکمل ادائیگی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کرنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ تفسیر بالقرآن: رکوع وسجود کی اہمیت : 1۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، سجدہ اسے کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ (حٰم السجدۃ:37) 2۔ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر :98) 3۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل :45) 4۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ (الحج :77) 5۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم :62) 6۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل :46) 7۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن :6) 8۔ جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف :206) 9۔ ” اللہ“ کو زمین و آسمانوں کی ہر چیز، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بے شمار لوگ سجدہ کرتے ہیں۔ ( الحج :18)