ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ
یہ اور جو شخص اس کی مثل بدلہ لے جو اسے تکلیف دی گئی، پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرورہی اس کی مدد کرے گا، یقیناً اللہ ضرور نہایت درگزر کرنے والا، بے حد بخشنے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : بے شک اللہ تعالیٰ حوصلے والا ہے۔ لیکن وہ اپنے مظلوم بندوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ بدلہ لے سکتے ہیں۔ بدلہ لینے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مظلوم اس قدر ہی بدلہ لے سکتا ہے جس قدر اس پر زیادتی کی گئی ہو۔ اگر بدلہ لینے والے پر دوبارہ زیادتی کی گئی تو اللہ تعالیٰ مظلوم کی مدد فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔ بدلہ فوجداری، دیوانی اور لسانی معاملات میں ہوگا۔ اخلاقی معاملات میں بدلہ لینے کی بجائے حدود کا نفاذ ہے یعنی اگر کسی کی بہو، بہن، بیٹی یا کسی عزیزہ کے ساتھ کوئی شخص بدکاری کرتا ہے تو اس کی شرعی سزا ہوگی نہ کہ بدکاری کرنے والے کی عزیزہ کے ساتھ بدکاری کی اجازت۔ ان معاملات میں حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ شریعت کے مطابق مظلوم کی دادرسی کا انتظام کرے مظلوم کو بدلے کا حق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔ جس میں واضح طور پر اشارہ دیا گیا ہے کہ لوگو! اگر اکثر معاملات میں ایک دوسرے کو معاف کر دو۔ تو اللہ تمھیں بھی معاف کر دے گا۔ ابن جریج اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت صحابہ کے اس لشکر کے بارے میں نازل ہوئی جس کی مڈ بھیڑ کفار کے ایک جتھے سے حرمت والے مہینے میں ہوئی۔ مسلمانوں نے انہیں حرمت والے مہینے کے احترام سے آگاہ کیا کہ وہ اس کا احترام کریں۔ مشرک یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، انہوں نے صحابہ پر حملہ کردیا تب مسلمانوں نے اپنا دفاع کیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور انہیں کفار پر غلبہ عطا فرمایا۔ ( ابن کثیر ) مسائل: 1۔ مظلوم کو ظلم کے برابر بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی ضرور مدد کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔